بدہ 15 مئی 2024

مایوسی کے اندھیرے اور صحافتی قلم کا دیا

مایوسی

تحریر:عمران ملک، اسپین

میں بارسلونا فٹ بال کلب کا فین ہوں اور اکثر اوقات ،فٹ بال کلب بارسا سے متعلقہ اخبارات، نیوز اور آرٹیکل بڑے شوق سے پڑھتا ہوں۔ قارئین کو علم ہو گا کہ بارسا فٹ بال کلب اپنے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ہم جب سپر کوپا دے اسپانیا کا فائنل کھیل رہے تھے تو صحافیوں نے لکھا کہ یہ بارسا کے لیے بڑا اچھا چانس ہے۔ نئی ٹیم کے ساتھ اپنا پہلا ٹائٹل جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔ لیکن ہم فائنل ہار گئے۔ مجھے اس کا شدید دکھ ہوا اور آئندہ دلچسپی نہ لینے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ جب تک ٹیم کسی اچھے مقام تک نہیں پہنچ جاتی تب تک میں ٹیم تو کیا اس کھیل میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لوں گا۔ لیکن مایوسی کے اس دور میں بھی میں نے اخبارات اور آرٹیکلز کا مطالعہ نہیں چھوڑا۔

وہ کہتے ہیں ناں کہ مطالعہ آپ کا بہترین ساتھی ہے۔ مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بھی امید کی کرن بنتا ہے۔ تو ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا۔ ایک آرٹیکل نے میرا منفی رویہ اور ناکامی و ذہنی مایوسی کو دور کرنا شروع کرنا کر دیا۔

مصنف کا نام تو یاد نہیں البتہ اس مضمون کے مندرجات یاد ہیں۔ اس میں لکھا تھا کہ کیا ہوا ہم کوپادے اسپانیا ہار گئے؟ ہم کوپا دے رئی جیت سکتے ہیں. دل میں ایک امید کی کرن جاگی۔ لیکن شومئی قسمت کوپا دے رئی میں بھی ہمیں سبیا سے شکست ہو گئی۔ اور یوں ایک مرتبہ پھر مایوسی نے چہار جانب سے گھیر لیا۔ لیکن سانس باقی آس باقی کے مصداق ایک دو مزید آرٹیکلز کے مطالعے نے میرا ذہن دوبارہ اپنے کلب کی طرف راغب کر دیا۔ ان میں بھی کوئی ایسی ہی تحاریر تھیں کہ کیا ہوا ہم کوپا دے اسپانیا اور کوپا دے رئی ہار گئے ہمارے پاس ایک بہترین چانس ہے کہ چیپمین لیگ میں ہم اچھی کارکردگی دکھا کر اپنے آپ کو ایک اچھی ٹیم ثابت کر سکتے ہیں۔

دوستو۔۔۔۔۔ اسے بدقسمتی کہیے یا کچھ اور، بارسا چمپئن لیگ کا میچ بھی ہار گیا۔ اس مرتبہ تو مایوسی اپنی انتہا کو چھو رہی تھی۔ قریب تھا کہ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھیل تو کیا اخبارات اور مضامین کے مطالعے سے بھی تائب ہو جاتا، کہ ایک اور آرٹیکل نے میرا ذہن دوبارہ میچوں کی جانب راغب کر دیا۔

اس آرٹیکل کی تحریر بھی کچھ ایسی تھی کہ شائد اس سال ہم کوئی بڑی کامیابی حاصل نہ کر سکیں لیکن لیگ میں بارسا واپس آسکتا ہے۔ آپ یقین کیجیے کہ یہ آرٹیکل پڑھ کر دل میں ایک بار پھر جوت جگی۔ ایک بار پھر آس بندھی کہ ہاں اچھا برا وقت تو آتا رہتا ہے۔ لیکن ہمیں ہمیشہ اچھے کی امید رکھتے ہوئے یہ سوچنا چاہیے کہ اب کی بار ہم ضرور کچھ کر دکھائیں گے۔ آنے والے دن کا سورج ہمارے لیے خوشیوں اور کامیابیوں کی نوید لائے گا۔ اگر ہم یہ سوچ رکھیں تو مایوسی کبھی بھی ہمیں اپنی طرف کھینچ نہیں سکتی۔

قارئین، پسِ تحریر یہ ہے کہ میری ناامیدی اور مایوسی کو مثبت سوچ رکھنے والے صحافی مشکل وقت میں بھی اپنی پروفشنل مہارت سے ختم یا کم کرنے میں کامیاب رہے۔ یقیناً وہ لکھتے وقت میرے جیسے بہت سے مایوس لوگوں کے بارے میں سوچتے ہوں گے۔ اب ذرا تصور کیجیے کہ کھیل سے لے کر مذہب، معاشرت اور ثقافت کے میدان تک قوموں کی زندگی میں بے شمار ایسے مسائل اور بحران آتے ہیں۔ انفرادی سطح سے اجتماعی سطح تک ہمیں لاتعداد مرتبہ ایسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جن سے کوئی راہِ فرار ممکن نہیں ہوتی۔ جب کوئی فرد یا قوم ایسے میں مایوسی کی دلدل میں پھنسنے لگتے ہیں تو اپنے قلم کے ذریعے ذمہ دارانہ صحافت کرنے والے صحافیوں کی سوچ بحیثیت مجموعی کتنا مثبت اثر ڈالتی ہو گی؟

اپنی تحریر کا اختتام اس بات سے کروں گا کہ قوموں کی زندگی میں عروج و زوال آتے رہتے ہیں۔ لیکن ایسے میں سب سے بڑی ذمہ داری ان اہلِ قلم پر آتی ہے جو اپنے الفاظ کے سہارے قلم کا وہ دیا جلا سکتے ہیں جو مایوسی کے اندھیروں میں بھی امید کی روشنی پیدا کرے۔ اور یوں وہ ایک فرد تو کیا پوری قوم کو ظلمت کے اندھیروں سے باہر نکال کے لا سکتے ہیں۔ مثبت سوچ اور اندازِ فکر رکھنے والے ایسے تمام صحافیوں کو میرا سلام

Facebook Comments