بدہ 15 مئی 2024

ڈاکٹر عبدالقدیر کی نقل و حرکت سے متعلق کیس، حکومت کی ان کیمرا سماعت کی استدعا مسترد

ڈاکٹر عبدالقدیر کی نقل و حرکت سے متعلق کیس، حکومت کی ان کیمرا سماعت کی استدعا مسترد

جوہری سائنس دان ڈاکڑ عبدالقدیرخان کی جانب سے ان کی نقل و حرکت پر پابندی کے خلاف دائر کی گئی درخواست پر حکومت کی ان کیمرا سماعت کی استدعا مسترد سسپریم کورٹ نے مسترد کردی۔

سپریم کورٹ نے سفری پابندیوں سے متعلق کیس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو عدالت آنے کی اجازت دے دی۔

عدالت عظمیٰ میں سفری پابندیوں کےخلاف ڈاکٹرعبدالقدیرخان کی درخواست پر جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

دوران سماعت جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے کہ ’ہم نے ڈاکٹرصاحب سے ایٹم بم کا فارمولہ نہیں پوچھنا، وکلا کی ذمہ داری ہے کہ قوم کے ہیرو کا تمسخر نہ بنائیں‘۔

جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے حقوق کو غیر مناسب فورمز پر لے جا کر کیوں اپنا حق ضائع کر رہے ہیں۔

سماعت کے آغاز پر ڈاکٹرعبدالقدیرخان کے وکیل نے دلائل دیے کہ ان کے موکل کو آج عدالت نہیں آنے دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت آنا ان کے موکل کا بنیادی حق ہے۔

وفاقی حکومت کے وکیل احمربلال صوفی کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرصاحب کے عدالت آنے سےمسائل ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ بہتر ہے عدالت ان کیمرا سماعت رکھ لے جس پر جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ ایسی کوئی وجہ نہیں کہ سماعت ان کیمرہ کی جائے۔

جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے ریمارکس دیے کہ ڈاکٹرعبدالقدیرخان کی قوم کے لیے خدمات کو تسلیم کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے فریقین کی رضامندی سے 2009 میں فیصلہ دیا، جسے 10 سال تک کہیں چیلنج نہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرعبدالقدیرخان نے اب لاہور ہائی کورٹ میں نئی درخواست دائر کردی، اگر سپریم کورٹ معاملے میں براہ راست مداخلت کرے توکیا یہ مناسب ہو گا؟

انہوں نے استفسار کیا کہ عدالت کو مطمئن کیا جائے ڈاکٹرعبدالقدیر خان اسلام آباد ہائیکورٹ دوبارہ کیوں نہیں گئے؟

اس پر ڈاکٹرعبدالقدیرخان کے وکیل نے کہا کہ بنیادی حقوق کے معاملے میں سپریم کورٹ براہ راست مداخلت کر سکتی ہے۔ جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ ’عدالت سے غیر مناسب حکم کے لیے اصرار نہ کریں، درخواست پر اپنے موکل سے مشاورت کر کے موقف بتا دیں‘۔

بعد ازاں عدالت نے سماعت عدالت نے سماعت 13 مئی تک کے لیے ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ملک بھر میں آزادانہ نقل و حرکت سمیت ان کے بنیادی حقوق پر عمل درآمد کے لیے 23 دسمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کرلیا تھا۔

ایڈووکیٹ زبیر افضل رانا کے توسط سے عدالت عظمیٰ میں دائردرخواست میں کہا گیا تھا کہ آزادانہ نقل و حرکت سمیت بنیادی حقوق، معقول پابندیوں کی آڑ میں کسی کی پسند یا ناپسند پر کم یا سلب نہیں کیے جاسکتے۔

ڈٓاکٹرعبدالقدیر خان نے لاہور ہائی کورٹ کے 25 ستمبر 2019 کے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کی تھی جس میں ان کی اسی طرح کی ایک درخواست کو اس بنیاد پر مسترد کردیا گیا تھا کہ ان کے تحفظ کے لیے ریاست کی جانب سے خصوصی سیکیورٹی اقدامات کا معاملہ ان کے دائرہ کار میں نہیں۔

درخواست میں سوال کیا گیا تھا کہ کیا سرکاری عہدیداروں کو درخواست گزار، ان کے قریبی اور عزیز لوگوں، ملازمین، اہل خانہ، دوستوں، صحافیوں، مختلف کالجوں، یونیورسٹی کے اساتذہ، اعلیٰ حکام اور بیورو کریٹس سے ملنے سے روکنے کے آئینی تحفظ کی خلاف ورزی کی اجازت دی جاسکتی ہے۔

مذکورہ درخواست میں یہ بھی سوال کیا گیا تھا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے اس شکایت کے ازالے کے لیے درخواست گزار کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا بنیادی مشورہ دینے کا جواز درست تھا۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی درخواست کے مطابق انہیں سیکیورٹی حکام کی پیشگی منظوری کے بغیر ملک میں گھومنے پھرنے، کسی سماجی یا تعلیمی تقریب میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں، یہ صورت حال درخواست گزار کو ورچوئل قید میں رکھنے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی حکام کا یہ فعل غیر قانونی ہے کیونکہ ابھی تک میرے ساتھ ایسا سلوک رکھنے کا کوئی حکم نہیں دیا گیا جو اس بات کی ضمانت دیتا ہو، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سیکیورٹی ایجنسیز کے اہلکاروں کی دوسری کوئی ذمہ داری نہیں لیکن مجھے اپنے گھر تک ہی محدود رکھ دیا گیا ہے جیسے میں قید تنہائی میں ہوں۔

ایٹمی سائنسدان کا کہنا تھا کہ یہ صورت حال جنوری 2004 میں شروع ہوئی جب انہیں سلامتی کے نام پر نظر بند کردیا گیا۔

انہوں نے درخواست میں کہا کہ انہیں کسی دوست تک رسائی نہیں تھی یہاں تک کہ وہ کچھ گھروں کے فاصلے پر رہنے والی بیٹی اور اس کے بچوں سے بھی نہیں مل سکتے تھے جبکہ بری صورتحال یہ تھی کہ وہ عدالت سے بھی رسائی نہیں کرسکتے تھے۔

خیال رہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان کے جوہری پروگرام کے علمبردار ہیں اور یہ ان امور سے وابستہ لوگوں کی انتھک محنت تھی کہ وہ ملک کو ایٹمی طاقت بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔

Facebook Comments