جمعہ 26 اپریل 2024

یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

ایک ماں کی عزتِ نفس کو اس کے بچوں کے سامنے کچلا گیا۔ اسے ہمیشہ کے لیے اپنے بچوں سے نظریں چرانے اور زندہ درگور ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ جس کی عزت اس کے معصوم بچوں کے سامنے تارتار ہوتی رہی جو بھائی بھائی کر کے مدد کو پکارتی رہی۔ اور جب کوئی مدد کے لیے پہنچا تو اتنی دیر ہو چکی تھی کہ وہ گڑگڑاتی رہی کہ خدارا مجھے گولی مار دو۔ مجھے ختم کر دو۔ 

اس ماں کے بارے میں وقت کے سی سی پی او، ان ماؤں کی عزتوں کے رکھوالے فرماتے ہیں کہ خاتون آدھی رات کو موٹروے پر کیا کر رہی تھی؟؟؟؟

یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

یقیناً ان کے پاس تھانے میں کوئی عورت انصاف کے لیے جاتی ہو گی۔تو جواب ملتا ہو گا۔۔۔۔ “بی بی آپ گھر سے باہر کیوں نکلیں؟”

یہ لوگ رکھوالے ہیں ہماری عزتوں کے؟ 

اگر محافظ نہیں بن سکتے تو چوکوں اور شاہراہوں پر بورڈ لگا دو کہ خبردار شام کے بعد کوئی ضروری کام سے بھی گھر سے باہر نہ نکلے۔

زیادتی کا شکار خاتون فرانس میں مقیم تھیں۔ اپنے بچوں کو لے کر پاکستان آئیں صرف اس لیے کہ ان بچوں کو اسلامی اور پاکستانی معاشرے کا ماحول مل سکے۔ یہاں کے رسم و رواج کے مطابق ان کی تربیت ہو۔  لیکن اب وہی بچے اپنی ماں کو کس نظر سے دیکھیں گے؟ کیا ماں اور بچوں کا تعلق دوبارہ ویسا رہ پائے گا جیسا کہ پہلے تھا؟ کیا اس قصور کی اتنی بڑی سزا اسے ملنی چاہیے تھی کہ وہ پاکستان کو فرانس سمجھ کر ایک گھنٹے کے سفر کو سامنے رکھ کر بچوں سمیت گھر سے نکلیں؟

یہ سوال نہیں۔۔۔۔ طمانچے ہیں۔ اس گلے سڑے بوسیدہ نظام پر طمانچے، جو یہ سمجھتا ہے کہ رات کو موٹروے پر سفر کرنے کی سزا بچوں کے سامنے عصمت دری ہونی چاہیے۔ 

مانتا ہوں۔۔۔۔ ان سطور کی اشاعت یا اگلے کچھ دن تک ذمہ دار پکڑے جائیں گے؟ لیکن پھر کیا ہو گا۔ پیشی پر پیشی، پیشی پر پیشی پڑتی رہے گی۔ کبھی وکیل صاحب موجود نہیں ہوں گے۔ کبھی جج کا تبادلہ ہو جائے گا۔ مظلوم ماں کو انصاف کے نام پر ذلیل کیا جاتا رہے گا۔ اور پھر ایک دن آئے گا جب معزز جج صاحب بھی تحریری فیصلے میں صادر فرمائیں گے کہ مجرموں کا ناکافی ثبوتوں کی بناء پر رہا کیا جاتا ہے۔ اور خاتون کو رات کے اندھیرے میں بچوں کو لے کر سفر کرنے کے جرم میں قیدِ بامشقت سنائی جاتی ہے۔ اور تب تک نہ جانے ایسی کتنی ہی اور ماؤں کی عصمتیں لُٹ چکی ہوں گی۔ 

معذرت کے ساتھ یہ محض سی سی پی او کا ایک بیان نہیں، بلکہ ملک کی پوری انتظامی نا اہلی اور فرسودہ ہوچکے نظامِ انصاف کی عکاسی ہے۔ 

جہاں عبدالمجید اچکزئی جیسے قاتل باعزت بری ہوتے ہوں۔ عزیز بلوچ جیسے عدالت پیشیوں پر وکٹری کے نشان بناتے ہوں۔ اربوں ڈکارنے والوں کو ضمانت ملتی ہو اور لوگوں کے کیرئر یس آر نو سے برباد کیے جاتے ہوں۔ وہاں ایک سی سی پی او کے بیان پر کیا شکوہ۔۔۔۔۔

(انزک چوہدری)

Facebook Comments