“لادی گینگ” کیا ہے، نہتے شخص کے ہاتھ پاؤں کیوں کاٹے گئے، حکومت لادی گینگ کے خلاف کیا کرنے جا رہی ہے۔۔۔۔۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں انتہائی دردناک طریقے سے ایک شخص کے ہاتھ ناک اور بازو کاٹے جا رہے ہیں۔ وائرل ہونے والی یہ ویڈیو اتنی دل دہلا دینے والی ہے کہ کوئی بھی کمزور دل ایک منٹ سے زیادہ نہیں دیکھ سکتا۔ بتایا جاتا ہے کہ ویڈیو میں نہتے شخص پر ظلم کرنے والے افراد کا تعلق لادی گینگ سے ہے۔
سچ جاننے کے لیے سب سے پہلے رخ کرتے ہیں صوبہ پنجاب کے جنوبی ضلع ڈیرہ غازی خان کا، پنجاب کے موجودہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا تعلق بھی اسی ضلعے کی تحصیل تونسہ سے ہے۔ یہاں سے آگے ڈی جی خان سمینٹ فیکٹری کے عقب سے شروع ہوتا ہے وہ پہاڑی سلسلہ جسے کوہ سلیمان کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ علاقہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی حدود کو سمیٹے ہوئے ہے۔ دلدل، بیابان، اور پتھریلی چٹانیں اس علاقے کی شناخت ہیں۔ یہاں پر وسیع پیمانے پر جنگلات بھی موجود ہے۔ اس علاقے کو کچے کا علاقہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ جگہ ڈاکووں کی جنت کہلائی جاتی ہے۔ وجہ یہ کہ یہاں کے جغرافیائی خدو خال اتنے پچیدہ ہیں کہ کسی بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے کے لیے جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ انہیں ڈیرہ غازی خان کے قبائلی علاقہ جات بھی کہا جاتا ہے۔ پورے پاکستان کے بدنام زمانہ ڈاکو اور جرائم پیشہ افراد وارداتوں کے بعد یہاں آ کر روپوش ہوتے ہیں۔ اکٹھے ہوتے اور گینگ بنا کر کاروائیاں کرتے رہتے ہیں۔
اب آتے ہیں لادی گینگ کی جانب، لادی گینگ کا نام مقامی افراد کے لیے نیا نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ لادی گینگ کا سربراہ محمد لادی کے نام سے یہ گینگ لگ بھگ پچاس سے ساٹھ ان ڈاکوؤں کے گروہ پر مشتمل ہے جو ملک بھر کے دیگر علاقوں میں جرائم کر کے یہاں پناہ کے لیے آئے اور پھر محمد لادی کی سربراہی میں گینگ کا حصہ ہو گئے۔ دو تین سال سے اس گینگ نے علاقے بھر میں لوٹ مار مچا رکھی تھی۔ تاہم پچھلے سال پولیس آفیسر رانا محمد اقبال نے ایک بھرپور کارروائی کے بعد گینگ کے سربراہ محمد لادی کو ہلاک کر دیا۔ جس کے بعد یہ گینگ کچھ عرصہ منتشر رہا۔ اب خدا بخش چاکرانی نامی بدنامِ زمانہ ڈاکو کی سربراہی میں یہ گینگ پھر سے متحرک ہوا ہے۔ پچھلے دو تین ماہ سے اس گینگ نے علاقے میں شہریوں کا جینا محال کر رکھا تھا۔ دن دیہاڑے موٹر سائیکل چھیننے اور اغواء برائے تاوان و قتل جیسے واقعات عام ہو چکے تھے۔ اور تو اور جنازوں تک کو نہیں بخشا گیا۔ پچھلے دنوں لادی گینگ نے قبرستان میں تدفین کے لیے میت کو لے جاتے شہریوں کو بھی لوٹ لیا۔ ایسے میں بتایا جاتا ہے کہ ایک مقامی صحافی جاوید صدیقی نے لادی گینگ کے متعلق تمام راز طشت ازبام کر دیے۔ گینگ کی مذموم کارروائیوں کو دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ یہاں سے گینگ کا نام ملکی سطح پر سامنے آیا۔
بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا۔۔۔۔ کے مصداق بجائے اس کے کہ مذموم کارروائیوں کو کم کرتے لادی گینگ کے سربراہ خدا بخش چاکرانی نے الٹا صحافی جاوید صدیقی کو دھمکیاں دینا شروع کر دیں اور بھتہ بھی مانگ لیا۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ لادی گینگ نے اپنے حوالے سے میڈیا تک خبر پہنچانے اور مخبری کرنے والے تین مقامی افراد کو اغواء کر لیا۔ یہ تین افراد تھانہ کشوبہ کے علاقے کے رہائشی تھے جن کے نام رمضان، خادم اور خیرو بتائے جاتے ہیں۔ گینگ کے ڈاکوؤں نے خادم اور خیرو کو فائرنگ کر کے قتل کیا۔ جبکہ رمضان بلچھانی نامی شخص کو اس بے دردی سے کاٹا جس کی ویڈیو آپ نے سوشل میڈیا پر دیکھی۔
لادی گینگ نے رمضان بلچھانی کے اعضاء کاٹنے کی ویڈیو اپنی ہیبت بٹھانے کے لیے بنائی، لیکن اب یہ ویڈیو اس بدنام زمانہ گینگ کے گلے پڑ چکی ہے۔ کیونکہ ویڈیو جس روز وائرل ہوئی اس روز وزیر اعظم پاکستان عمران خان اسی علاقے کے ضلع لیہ میں موجود تھے۔ انہیں یہ ویڈیو دکھائی گئی۔ ادھر ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار بھی ملتان میں موجود تھے۔ مقتدر شخصیات کے سامنے ویڈیو آتے ہی ہنگامی میٹنگز ہوئیں اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ پولیس و رینجرز سمیت قانون نافذ کرنے والے ادارے فوری طور پر لادی گینگ کے خلاف آپریشن کریں گے۔ یہ آپریشن آخری اطلاعات تک جاری ہے۔پرخطر اور دشوار علاقہ ہونے کے باعث یہ آپریشن مسلسل کئی روز تک جاری رہنے کی توقع ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ گینگ کے پاس بھاری تعداد میں اسلحہ بارود اور راکٹ لانچرز تک موجود ہیں جو کہ یقینی طور پر پڑوسی ملک بھارت سمیت مخالف ایجنسیوں کا فراہم کردہ ہے۔ ایسے میں اداروں کے لیے لادی گینگ کا قلع قمع کرنا ایک چیلنج سے کم نہیں۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ بالآخر یہ گینگ اپنے انجام کو پہنچے گا۔ جرائم پیشہ افراد کا خاتمہ ہو گا اور علاقے کے لوگ سکھ کا سانس لے سکیں گے۔
Facebook Comments