جمعہ 26 اپریل 2024

لمحہ فکریہ…

لمحہ فکریہ…
فوٹو : رائٹرز

حنا شہزادی

مجھے کبھی کبھی لکھتے ہوئے ساری ساری رات گزر جاتی ہے اور لکھتے ہوئے میرے آنسو میرے باطن پہ گرتے ہیں یہ آنسو نظر تو نہیں آتے لیکن انسان کو اندر سے دیمک کی طرح ایک دن ختم کر دیتے ہیں اس آگہی کا کوئی نام نہیں ہوتا لیکن جب میں کہی دور صحراؤں بیابانوں میں تنہا کھڑے ہو کر اپنے معاشرے کی گرد نظر دوڑاتی ہوں تو مجھے پرنور چہروں میں بھیانک چہرے نظر آتے ہیں۔ ایک کائنات انسان کے باطن میں ہوتی ہے جو ہماری خود کی تخلیق کردہ ہے اور دوسری باطن سے پرے ہوتی ہے۔ 

اندر کی کائنات بھی تب بنتی ہے جب باہر کی کائنات کی آیتوں سے آیتیں ملاتے میں نشانیاں تلاش کرتی ہوں۔ اور کبھی یخ بستہ ٹھٹھرتی ہوئی شام میں میں خود کو بے بس محسوس کرتی ہوں۔ 

  میری سوچوں کا تسلسل ہنوز برقرار رہتا ہے کبھی سامنے ٹیبل پہ رکھی ہوئی چائے سے بھاپ اڑنا بند ہو جاتی ہے اور کبھی میں خاموش تماشائی بن کے سب دیکھ رہی ہوتی ہوں۔ مجھے لگتا ہے جیسے کوئی چیخوں پکار کر رہا ہے یا کسی کی آہ و بکا سنائی دیتی ہوں۔ 

یہ چیخیں شاید ہم سب سنتے ہیں لیکن ان کو فراموش کر کے اپنی زندگی کی ڈگر پہ رواں دواں رہتے ہیں۔ 

 گہری سیاہ رات میں چائے کا مگ پکڑے کھڑکی کے کھلے پٹوں سے چاند کو تکتے میں کہی کھو جاتی ہوں۔ قلم کو پکڑے ہوئے گم صُم ہو جاتی ہوں اور یہ تاریک رات اپنے پر پھیلائے ہوئے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوتی ہے۔ 

 خاموش رات بلکل خاموش پورا شہر سو رہا ہوتا ہے ایسا ہمیں لگتا ہے_ لیکن اس اندھیرے میں کچھ لوگوں کی زندگی موت سے بھی بدتر ہوتی ہے۔ اندھیرے میں ڈوبا ہوا شہر کئی لوگوں کو سوچوں کے بھنور میں چھوڑ دیتا ہے اور یوں ایک تاریک رات اپنے اندر کئی راز دفن کر لیتی ہے 

رات کی تاریکی میں بوڑھے ماں باپ بستر پہ لیٹے ہوئے اپنی اولاد کی سوچوں میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان کا پیٹ کیسے بھرنا ہے بیٹیاں جوان ہو رہی ہیں ان کا جہیز کیسے بنانا ہے۔ 

 طلاقِ یافتہ لڑکی اپنی قسمت پہ رو رہی ہوتی ہے کہ جانے اب میری قسمت میں کیا لکھا ہے میری منزل اب کیا ہے کون پچاس یا ساٹھ سال کا بوڑھا مجھ سے اب شادی کرے گا۔ کوئی کسی سے بچھڑ کے میخانے میں شراب پی رہا ہوتا ہے ۔ 

کوئی بیوہ اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے پریشان ہوتی ہے کہ میرے بچوں کے سر پر کون شفقت بھرا ہاتھ رکھے گا کون انہیں اپنائے گا۔ میں کیسے اپنے بچوں کی مرحومیوں کا ازالہ کروں گی اور نم آنکھوں سے اپنے بچوں کے سر پر ہاتھ پھیرتی ہے۔ 

وزیراعظم کے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ پر ایک کروڑ ڈالرسے زائد کی بدعنوانی کے الزام پر تحقیقات شروع، نیب کے نوٹسز

کوئی لڑکی اپنے محبوب کے قدموں میں گر گرا رہی ہوتی ہے کہ خدا کے لیے مجھے کبھی نہ چھوڑنا میرے ماں باپ مر جائیں گے مجھے اجڑتے دیکھ کر تو کہی کوئی حوا کی بیٹی زیادتی کا نشانہ بنتی ہے۔ 

تو کوئی حوا کی بیٹی آپنے جسم کی نمائش کرتی ہے۔ کوئی مرد اپنی بیوی کی بے وفائی پہ رو رہا ہوتا ہے۔ 

 اور رہی سہی کسر ٹک ٹوک نے پوری کر دی ہے۔ دین دار اچھے گھروں کی بچیاں اور بچے رقص کرتے اور بے حیائی پھیلاتے نظر آتے ہیں اتنی زیادہ بے حیائی ٹک ٹوک پہ دیکھنے کو ملتی ہے کہ خدا ہی معاف کرئے۔ 

 کچھ دن پہلے ایک دوست کہتی حنا آج بہت اچھا شو لگنا ہے لازمی دیکھنا بہت بہت بڑی شخصیات نے آنا ہے میں نے بھی سوچا کہ شاید کچھ سیکھنے کو مل جائے اور جب شو شروع ہوا تو وہ ٹک ٹاکرز کا لائیو شو تھا جدھر لڑکیاں لڑکے ایک ساتھ ناچ رہے تھے اور ہزاروں کیا لاکھوں لوگ وہ سب لائیو دیکھ رہے تھے صد افسوس!! کے آج ہم کدھر کھڑے ہیں۔جب آج کی لڑکیاں ناچ کر خود کو مشہور کریں گی تو کل کو وہ ہیجڑے ہی پیدا کریں گی وہ آپنی اولاد کو کیا تربیت دیں گی؟ جب اس قوم کے آئیڈیل ناچنے والے ہوں گئے تو وہاں محمد بن قاسم,محمود غزنوی جیسے انسان نہیں بلکے غلام اور ہیجڑے پیدا ہوں گے۔ 

 ننھے بچے دو وقت کی روزی روٹی کے لئے جوتے صاف کر رہے ہوتے ہیں جن ہاتھوں میں قلم کتاب ہونی چاہیے وہ مشقت کر رہے ہوتے۔ 

میں خود سے پوچھتی ہوں کہ حنا یہ ہے تیرا معاشرہ جو بظاہر تو آزادنہ ہے لیکن باطن سے ایک پھڑپھڑانے ہوئے قیدی پرندے کی طرح ہے۔ 

ہمارے معاشرے میں ایک بچہ آزاد پیدا ہوتا ہے لیکن در حقیقت وہ غلام ہوتا ہیں جب بچہ سکول جاتا ہے تو والدین سوچتے ہیں کہ بڑا ہو لے اس کو دوسرے ملک بھیج دیں گے اور یوں ہم ہمشہ غیر ملکیوں کے غلام رہتے ہیں کبھی نفس کے غلام تو کبھی غیر ملکیوں کے غلام اور یونہی ساری زندگی ہماری غلامی کرنے میں بسر جاتی ہے۔ 

ہم اگر دو چار کتابیں پڑھ لیں تو ہم انسان کو انسان ہی نہیں سمجھتے۔تم لاکھ پڑھ لو ڈگریوں کے انبار لگا دو لیکن اگر تم بے سہارا کو سہارا نہیں دے سکتے . کسی کے آنسو نہیں پونچھ سکتے , بھوکے کی بھوک نہیں محسوس کر سکتے تو پھر افسوس تم سے اچھا تو ایک کتا ہے اینٹں اٹھانے والا گدھا ہے .

صد افسوس! کے ہم کیا تھے اور کیا بن گے ہیں۔

Facebook Comments