اتوار 19 مئی 2024

سوشل میڈیا کو ’کنٹرول‘ کرنے کا حکومتی اقدام عدالت میں چیلنج

سوشل میڈیا کو ’کنٹرول‘ کرنے کا حکومتی اقدام عدالت میں چیلنج

اسلام آباد ہائی کورٹ میں حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے اقدام کے خلاف درخواست دائر کردی گئی۔

یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے 28 جنوری کو سوشل میڈیا ریگولیٹ کرنے کے قواعد کی منظوری دی تھی۔

مذکورہ درخواست ایڈووکیٹ احسن ستی نے اپنی وکیل بیرسٹر جہانگیر خان جدون کے ذریعے دائر کی۔

درخواست میں کہا گیا کہ 1948 میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منظور شدہ یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس کے مطابق ’آزادی اظہار رائے ہر ایک کا حق ہے، اس حق میں بغیر کسی مداخلت کے رائے رکھنے اور سرحدوں سے قطع نظر کسی بھی میڈیا کے ذریعے غیر جانبدار معلومات طلب کا وصول کرنا شامل ہے‘۔

درخواست میں کہا گیا کہ معاشرے میں آزادانہ روابط رکھنے کی آزادی کا معیار معاشرے کی ترقی کے ساتھ جمہوریت اور معاشرے کی مضبوطی پر گہرا اثر رکھتی ہے۔

درخواست کے مطابق سیاسی تناظر میں آزادی رائے شہریوں کا ہر قسم کے سیاسی مسائل پر باتے کرنے کے لیے قابلِ تنسیخ حق ہے۔ اس میں مزید کہا گیا کہ ’آئین پاکستان کے شہریوں کو دفعہ 19 کے تحت بنیادی اؔٓزادی رائے کی ضمانت دیتا ہے اور صرف ’قانون کے تحت نافذ‘ پابندیوں کی اجازت دیتا ہے۔

درخواست میں دیگر ممالک کے سوشل میڈیا قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ کسی قبل ذکر جمہوری ملک میں سخت میڈیا پالیسی نافذ نہیں۔

مزید یہ کہ کسی ملک میں شاید ہی کوئی ایسا جامع قانون موجود ہے جو سوشل میڈیا کے تمام پہلوؤں کو ریگولیٹ کرتا ہو تاہم صنعت میں سرکاری عناصر کے حوالے سے قواعد و ضوابط موجود ہیں۔

درخواست گزار کا مزید کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر قدغن لگانے کی غرض سے 28 جنوری 2020 کو وفاقی کابینہ نے سیٹیزن پروٹیکشن (اگینسٹ آن لائن ہارم) رولز 2020 کی منظوری دی۔

پٹیشن میں کہا گیا کہ سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے منظور کردہ قواعد معلومات حاصل کرنے کے بنیادی حق کے خلاف ہیں اور آئین میں شہریوں کی بنیادی حقوق کی دی گئی ضمانت سے بھی متصادم ہے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ اس قواعد میں سوشل میڈیا کمپنیوں کو اپنا دفتر بالخصوص ڈیٹا بیس سرورز پاکستان میں قائم کرنے اور رجسٹر کروانے کی شرط رکھی گئی ہے، ان قواعد کا بنیادی مقصد سوچل میڈیا کو حکومت کے بلاواسطہ کنٹرول کے ذریعے قابو کرنا ہے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ یہ قواعد آئین پاکستان، برقی جرائم کی روک تھام کے قانون 2016 اور پاکستان ٹیلی کمیونکیشن (ری آرگنائزیشن) ایکٹ 1996 کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔

جس کے بعد عدالت سے درخواست کی گئی کہ یہ قواعد چونکہ آئین کی دفعہ 19،اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے منظور کردہ انٹرنیشنل کنوینشن برائے سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس اور یورپی کنویشن برائے انسانی حقوق کی دفعہ 10 اور اس کے 5 پروٹوکول کے خلاف ہے۔

درخواست گزار نے کابینہ ڈویژن، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی، وزارت اطلاعات و نشریات، وزارت قانون و انصاف کے سیکریٹریز اور پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی کے چیئرمین کو فریق بنایا گیا ہے۔

Facebook Comments