بدہ 22 مئی 2024

بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے، ترک صدر

بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے، ترک صدر

انقرہ میں ترک صدر رجب طیب اردوان نے بھارت میں مسلمانوں کے ‘قتل عام’ پر تنقید کی۔

  دھرتی نیوز کی رپورٹ کے مطابق انقرہ میں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘بھارت اس وقت ایسا ملک بن گیا ہے جہاں قتل عام پھیل رہا ہے، کس کا قتل عام؟، مسلمانوں کا قتل عام، کون کر رہا ہے؟، ہندو’۔

انہوں نے مسلمانوں پر حملہ آور گروہ پر الزام لگایا کہ انہوں نے نجی ٹیوشن میں پڑھنے والے بچوں پر ‘لوہے کی راڈ سے حملے کیے جیسے انہیں قتل کردیں گے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ لوگ عالمی امن کو کیسے ممکن بنائیں گے، یہ ناممکن ہے، ان کی بہت بڑی آبادی ہے جس کی وجہ سے جب یہ تقریریں کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم مضبوط ہیں، یہ مضبوطی نہیں’۔

واضح رہے کہ بھارتی دارالحکومت میں کشیدگی عروج پر ہے جہاں ہزاروں پولیس اور پیرا ملٹری اہلکار سڑکوں پر پیٹرولنگ کر رہے ہیں اور کئی روز سے جاری تشدد کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں 38 افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ بھارت کے ساتھ ہی نئی دہلی میں متنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے دوران پرتشدد واقعات پیش آئے۔

گورو تیگ بہادر (جی ٹی بی) ہسپتال کے ڈائریکٹر سنیل کمار کا کہنا تھا کہ ان کے ہسپتال میں 34 ہلاکتیں رجسٹر کی گئی اور ‘یہ تمام ہلاکتیں گولی لگنے کی وجہ سے ہوئی تھیں’۔

لوک نائک ہسپتال کے چیف ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ وہاں 3 افراد ہلاک ہوئے۔

حکام کا کہنا تھا کہ ایک اور متاثرہ شخص جگ پرویش چندر ہسپتال میں ہلاک ہوا۔

لوک نائک ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کشور سنگھ کا کہنا تھا کہ 10 افراد کی حالت نازک ہے۔

دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کا کہنا تھا کہ جھڑپ کے دوران ہلاک ہونے والے افراد، زخمیوں یا جن کے کاروبار یا گھر تباہ ہوگئے انہیں معاوضہ ادا کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ علاقے میں غذا اور دیگر معاونت بھی فراہم کی جائے گی۔

پولیس کا کہنا تھا کہ انہوں نے 500 افراد کو سوال و جواب کے لیے حراست میں لیا ہے اور بین البرادری ہم آہنگی کے لیے شہر بھر میں ‘امن کمیٹی اجلاس’ کے انعقاد کا آغاز کردیا ہے۔

خیال رہے کہ ابتدائی طور پر ہنگامہ آرائی کا آغاز اتوار کی رات کو ہوا تھا جب مشتعل ہندو گروہوں نے مسلمانوں پر حملہ کردیا تھا۔

تلوار اور بندوقوں سے لیس گروہوں نے کئی افراد کے گھروں اور گاڑیوں کو نظر آتش کردیا۔

گھر، دکانیں، 2 مساجد، 2 اسکول، ٹائر کی مارکیٹ اور پیٹرول پمپ کو نظر آتش کیا گیا۔

واقعے میں 200 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔

دہلی پولیس کے ترجمان مندیپ رندھاوا نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ رات کے وقت ‘کوئی بڑا سانحہ’ نہیں ہوا جبکہ شہر کے چیف فائر افسر اتول گارگ کا کہنا تھا کہ انہیں 19 مرتبہ طلب کیا گیا۔

‘غداروں کو گولی مارو’

اس سے قبل دسمبر میں شہریت قانون کی مںظوری کے بعد شمالی ریاست اتر پردیش میں کم از کم 30 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں سے زیادہ تر پولیس کی کارروائی سے ہلاک ہوئے تھے۔

خیال رہے کہ اتر پردیش میں بڑی تعداد میں مسلمان آبادی رہتی ہے۔

بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کو خدشہ ہے کہ نئے شہریت قانون اور شہرت کے رجسٹر سے وہ ان کی شہریت منسوخ ہوجائے گی اور انہیں حراستی کیمپوں میں بھیج دیا جائے گا۔

مسلمانوں اور ناقدین کے مطابق آر ایس ایس سے جڑی مودی کی انتہا پسند جماعت سیکولر بھارت کو ہندو قوم بنانا چاہتی ہے۔

ان کی پارٹی نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے تاہم حالیہ ہفتوں میں بی جے پی کے سیاست دان نے دہلی انتخابات کی مہم میں مظاہرین کو ‘قوم مخالف’ اور ‘جہادی’ کہا تھا۔

ایک بی جے پی رہنما پرویش ورما کا کہنا تھا کہ ‘مظاہرین آپ کے گھر میں داخل ہوسکتے ہیں اور آپ کی بہنوں کا ریپ اور قتل کرسکتے ہیں، جبکہ ایک اور انوراگ ٹھاکر نے عوام سے ‘غداروں کو گولی مارو’ کا نعرہ لگوایا تھا۔

بی جے پی کے ایک اور سیاست دان کپل مشرا کی جانب سے ہندوؤں کو شمال مشرقی دہلی میں دھرنے کو ختم کرانے کی کال ہی اس حالیہ فسادات کی وجہ سمجھی جارہی ہے۔

بدھ کے روز دہلی ہائی کورٹ کے جج ایس مرلیدھار نے پولیس پر تنقید کرتے ہوئے ان سے بی جے پی کے سیاست دانوں کے خلاف تشدد برپا کرنے کی تحقیقات کرنے کا کہا تھا۔

بعد ازاں اسی رات مرلی دھار کو دوسری ریاست کی عدالت میں تبادلہ کردیا گیا جس کی وجہ سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر شدید تنقید کی گئی تاہم وزیر قانون روی شنکر کا کہنا تھا کہ یہ ‘معمول کا تبادلہ’ تھا۔

اقوام متحدہ کے سربراہ مچل بیچلیٹ نے بھارتی سیاسی رہنماؤں سے ‘تشدد سے گریز کرنے’ کا کہا جبکہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) بھارت میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کی مذمت کی۔

نئی دہلی میں نیوز کانفرنس کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ سے جب اس بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ‘یہ بھارت کا معاملہ ہے’ اور انہوں نے نریندر مودی کے مذہبی آزادی پر بیانات کو سراہا۔

امریکا رد عمل

امریکا نے انتہائی محتاط انداز میں بھارت پر زور دیا ہے کہ جو لوگ مذہبی فسادات کے پیچھے ہیں وہ خود کو تشدد سے دور رکھیں۔

 امریکی نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی وسطیٰ ایشیائی امور ایلس ویلز نے ٹوئٹ میں کہا کہ ‘نئی دہلی میں مقتولیں اور زخمیوں کے ساتھ ہماری ہمدردیاں ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہم بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے امن کی بحالی کا تقاضہ کرتے ہیں’۔

ایلس ویلز نے زور دیا کہ تمام فریقین امن برقرار رکھیں اور تشدد کا راستہ اپنانے سے گریز کریں۔

امریکا میں صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کے مد مقبل کھڑے ہونے والے برنی سینڈرز نے ‘بڑے پیمانے پر پھیلانے مسلمان مخالف تشدد’ پر ٹرمپ کے رد عمل پر تنقید کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ٹرمپ نے رد عمل دیا کہ یہ بھارت کا معاملہ ہے، یہ انسانی حقوق پر قیادت کی ناکامی ہے’۔

Facebook Comments