بدہ 22 مئی 2024

’بچوں پر تشدد کے تمام واقعات کی وجہ اسلامی تعلیمات پر عمل نہ کرنا ہے‘

’بچوں پر تشدد کے تمام واقعات کی وجہ اسلامی تعلیمات پر عمل نہ کرنا ہے‘

اسلام آباد ہائی کورٹ میں بچوں پر تشدد اور جسمانی سزا پر پابندی کے لیے دائر درخواست کی سماعے کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ بچوں پر تشدد کے تمام واقعات کی وجہ اسلامی تعلیمات پر عمل نہ کرنا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بچوں پر تشدد روکنے کی درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے موقع پر درخواست گزار شہزاد رائے اپنے وکیل کے ہمراہ پیش ہوئے جبکہ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری بھی عدالت میں موجود تھیں۔

شیریں مزاری کی موجودگی کو سراہتے ہوئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ عدالت شیریں مزاری سے بہت متاثر ہوئی ان کو بلایا بھی نہیں گیا وہ یہاں موجود ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا کچھ صوبوں میں بچوں پر تشدد کے قوانین پر عمل درآمد ہو رہا ہے؟

شہزاد رائے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ خیبر پختونخوا اور سندھ میں بچوں پر تشدد روکنے کے لیے قانون سازی ہوئی۔

جس پر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ پھر وفاقی حکومت میں کیا مسئلہ ہے؟ جس کے جواب میں نمائندہ وزارت داخلہ نے کہا کہ دارالحکومت میں بچوں پر تشدد کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ شکایت تب ہوتی ہے جب کوئی بڑا نقصان ہوتا ہے، بچوں پر تشدد روکنے کی قانون سازی کا کیا بنا؟ یہ وفاقی حکومت کا کام ہے اور یہ کیس تو انسانی حقوق کا ہے۔

اس پر شیریں مزار نے بتایا کہ وزارت قانون نے کہا ہے کہ یہ آپ کا دائرہ اختیار نہیں، ہماری وزارت بچوں پر تشدد روکنے کی درخواست کی مکمل حمایت کرتی ہے اور وزیر اعظم عمران خان نے بھی بچوں پر تشدد روکنے کی مکمل حمایت کی ہے۔

شیریں مزاری نے بتایا کہ وزارت داخلہ نے بچوں پر تشدد روکنے کا بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا تھا جنہوں نے اس بل پر اعتراض کردیا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اسلام تو انسان کی عظمت کی تعلیمات دیتا ہے تشدد کی نہیں۔

نمائندہ پولیس نے مؤقف اختیار کیا کہ انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد کی رپورٹ کے مطابق آج تک اسکول میں بچوں پر جسمانی سزا کے خلاف کوئی درخواست سامنے نہیں آئی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ بچوں کو جسمانی سزا دینے کی ذہنیت تبدیل ہونا چاہیے یہی ذہنیت بچوں کے خلاف دیگر جرائم کی بنیاد بھی بنتا ہے۔

شیرین مزاری نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے بل کی منظوری دے دی ہے اب معاملہ پارلیمنٹ ارسال کرنا ہے لیکن اعتراض کیا گیا کہ یہ کام وزارت انسانی حقوق کا نہیں وزارت داخلہ کا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ انسانی حقوق کا معاملہ ہے اور وفاقی حکومت کا کام ہے۔

شہزاد رائے نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ بچوں کو جسمانی سزا دینے والے سیکشن 89 کا سہارا لیتے ہیں کہ اچھی نیت سے مارا ہے اس لیے عدالت تعزیرات پاکستان کی دفعہ 89 کو کالعدم قرار دے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ آئین کی دفعہ 14 بچوں کا تحفظ یقینی بنانے کا کہتی ہے اور اگر قانون نہ بھی ہو تو بچوں کو ہاتھ تک نہیں لگایا جاسکتا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سمجھ نہیں آرہی کہ وزارت داخلہ نے ایک اچھی قانون سازی کو اسلامی نظریاتی کونسل کو کیوں بھیجا؟ اسلامی نظریاتی کونسل نے اسلامی تعلیمات کا حوالہ دیے بغیر بچوں پر تشدد روکنے کے بل کی مخالفت کی۔

شیریں مزاری نے استدعا کی کہ عدالت بچوں پر تشدد اور جسمانی سزا کو بنیادی حقوق اور آئین سے متصادم قرار دے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ بچوں پر تشدد کے تمام واقعات اسلامی تعلیمات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہیں بطور سوسائٹی ہم اسلامی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے۔

عدالت کا مزید کہنا تھا کہ سخت سزاؤں سے نہیں ذہنیت تبدیل کرنے سے بچوں پر تشدد روکا جاسکتا ہے۔

عدالت کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ مارچ 2019 میں بچوں پر تشدد روکنے کا بل منظور کرچکی ہے اور حکومت بچوں پر تشدد روکنے کا بل پارلیمنٹ کو بھیج سکتی ہے۔

عدالت نے وزارت قانون کو ہدایت کی کہ افسر مقرر کرے جو بتائے کہ بل اب تک پارلیمنٹ کیوں نہیں بھیجا گیا؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگلی تاریخ پر عدالت بچوں پر تشدد روکنے کی درخواست کا فیصلہ کردے گی۔

بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے بچوں پر تشدد روکنے کے بل پر وزارت قانون سے 12 مارچ تک جواب طلب کرتے ہوئے مزید سماعت 30 مارچ تک ملتوی کردی۔

بچوں پر تشدد کے خلاف درخواست

خیال رہے کہ 13 فروری کو ہونے والی سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے تعلیمی اداروں میں بچوں پر تشدد پر پابندی عائد کرتے ہوئے پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی شق 89 کو تاحکمِ ثانی معطل کردیا تھا۔

اس سے قبل 12 فروری کو شہزاد رائے نے بچوں پر تشدد اور جسمانی سزا پر پابندی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

درخواست میں سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری قانون، سیکریٹری تعلیم، سیکریٹری انسانی حقوق اور انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد کو فریق بنایا گیا تھا۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ تعلیمی اداروں میں بچوں کو سزا دینا معمول بن چکا ہے کیونکہ پڑھائی میں بہتری کے لیے بچوں کو سزا دینا ضروری تصور کیا جاتا ہے اور بچوں پر تشدد اور سزا کی خبریں آئے روز میڈیا میں سامنے آرہی ہیں۔

درخواست میں غیر سرکاری تنظیم اسپارک کی رپورٹ کا حوالہ بھی دیا گیا تھا جس کے مطابق سزا کی وجہ سے ہر سال 35 ہزار بچے اسکول چھوڑ رہے ہیں، جبکہ یہ بھی بتایا گیا کہ بچوں کے حقوق کے حوالے سے پاکستان 182 ممالک کی فہرست میں 154ویں نمبر پر ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ پاکستان پینل کوڈ کی شق 89 کو بنیادی انسانی حقوق سے متصادم قرار دیا جائے کیونکہ یہ بنیادی انسانی حقوق اور بچوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔

ساتھ ہی یہ استدعا بھی کی گئی تھی کہ اسکولز، جیلوں اور بحالی مراکز میں بچوں کو جسمانی سزا دینے پر پابندی عائد کی جائے اور انہیں جسمانی و ذہنی تشدد سے محفوظ رکھنے کے لیے حکومت کو اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی جائے۔

درخواست میں ہائی کورٹ سے استدعا کی گئی تھی کہ اسکولوں میں بچوں کو جسمانی اور ذہنی تشدد کے ہر طریقے سے تحفظ کے اقدامات کی ہدایت کی جائے۔

اس میں مزید کہا گیا تھا کہ عدالت، اقوام متحدہ کے کنونشن کے تحت بچوں کے تحفظ کے قوانین پر مکمل عمل درآمد کی ہدایت دے اور بچوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے فوری حکم امتناع جاری کیا جائے۔

Facebook Comments