منگل 30 اپریل 2024

جرائم میں ملوث افغان باشندوں کو جرمنی چھوڑنا ہو گا، آرمین لاشیٹ

جرمنی کی قدامت پسند جماعت کرسچيئن ڈيموکريٹک يونين سے وابستہ چانسلر کے عہدے کے امیدوار آرمین لاشیٹ نے جرمن اخبار بلڈ سے بات چیت میں سیاسی پناہ سے متعلق اپنے موقف کو سخت تر کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجرموں کو جرمنی بدر کر کے ان کے وطن واپس بھیجنے کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے، بہ شمول افغانستان۔

 واضح رہے کہ لاشیٹ چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت کے قائد اور آئندہ انتخابات میں اپنی جماعت کی طرف سے چانسلر کے عہدے کے امیدوار ہیں۔ چانسلر میرکل اپنے عہدے کی مدت کے خاتمے پر سیاست سے کنارہ کش ہو جائیں گی۔

لاشیٹ نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ جنگ زدہ افغانستان میں کہا ہو رہا ہے مگر اس سے ان کے اس موقف پر فرق نہیں پڑے گا۔ انہوں نے کہا، ”ان حالات میں یقیناً جرمنی بدری سے متعلق فیصلے احتیاط سے کیے جانے چاہیے مگر اس بابت ہماری پوزیشن نہایت واضح ہے۔ جرمنی میں جرم کرنے والا کوئی بھی شخص یہاں مہمان کی حیثیت سے رہنے کا حق کھو دے گا۔‘‘

بہ ظاہر جرمنی میں ایسے کسی بھی جرم، جس میں کم از کم دو برس جیل کی سزا سنائی گئی ہو، یا کسی بھی سنگین نوعیت کے جرم میں ملوث غیر ملکیوں کو جرمنی بدر کیا جا رہا ہے۔ دسمبر 2020 میں جرمنی نے ایسے مہاجرین کو شام بھیجنے پر عائد پابندی بھی ختم کر دی تھی۔ سن 2012 سے یہ پابندی عائد تھی، جس کے تحت جرائم میں ملوث شامی باشندوں کو بھی واپس نہیں بھیجا رہا تھا۔ وزارت داخلہ کے مطابق فی الحال یہ ضابطہ سنگین جرائم میں ملوث چند افراد ہی پر لاگو کیا گیا ہے۔

افغانستان کی موجودہ صورت حال کیا ہے؟
افغانستان میں شورش کی صورت حال کے تناظر میں افغان مہاجرین کی جرمنی بدری ایک متنازعہ معاملہ ہے۔ امریکی قیادت میں نیٹو فورسز کے افغانستان سے انخلاء کے عمل اور وہاں طالبان کی پیش قدمی کے تناظر میں افغان تارکین وطن کو ان کے ملک واپس بھیجنے کے معاملے میں جرمنی میں بحث جاری ہے۔

اس معاملے پر لاشیٹ نے کہا، ”ہم افغانستان کی صورت حال کی کڑی نگرانی کر رہے ہیں۔ ہم طالبان کی پیش قدمی اور عام آبادی پر اس کے اثرات کو صرفِ نظر نہیں کر سکتے۔‘‘

ناقدین کی رائے کیا ہے؟
افغانستان میں جاری شورش اور خون ریزی کے تناظر میں مبصرين سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کو واپس افغانستان بھیجنے کو نہایت خطرناک قرار دیتے ہیں۔ مبصرين کا کہنا ہے کہ واپس بھیجے جانے والے افراد کی سلامتی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ اس بابت لاشیٹ نے کہا، ”اس صورت حال میں زیر تفتیش کیسز اور جرمنی بدری کے عمل کو احتیاط سے سر انجام دیا جائے۔‘‘

Facebook Comments