منگل 30 اپریل 2024

ماحولیاتی بحران کو ٹالنے کے لیے فوری عالمی اقدامات ضروری

ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ادارے آئی پی سی سی کی تازہ ترین رپورٹ پر دنیا بھر میں فکر ظاہر کی جارہی ہے۔ اس رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ پندرہ برس کے دوران زمین کا اوسط درجہ حرارت 1.5 ڈگری سیلسیئس سے زیادہ بڑھ جائے گا۔ یہ اوسط درجہ حرارت پہلے ہی 1.1 ڈگری تک بڑھ چکا ہے اور بہت کم ممالک خطرناک گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے ضروری قدم اٹھانے کی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔

عالمی اقدامات کے لیے جرمنی کی اپیل
آئی پی سی سی کی تازہ ترین رپورٹ پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے جرمن سیاست دانوں نے ملکی سطح پر کاربن گیسوں کے اخراج میں زبردست کمی اور اس سلسلے میں عالمی کوششوں میں مزید تعاون کرنے کی اپیل کی ہے۔

جرمن وزیر برائے ترقیات گیرڈمیولرنے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں سامنے آنے والے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک بڑی عالمی کوشش کی ضرورت ہے۔ انہوں نے غریب ملکوں سے بھی ماحولیاتی تحفظ کی پالیسیوں میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے کی اپیل کی۔

میولر نے ایک جرمن میڈیا گروپ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں 191 ملکوں میں سے صرف آٹھ ممالک ہی پیرس ماحولیاتی معاہدے کے اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے تحت دنیا کے تمام ملکوں کے لیے عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو دو ڈگری سیلسیئس سے نیچے رکھنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے اور بہتر ہوگا کہ گرین ہاوس گیسوں کے اخراج کو کم کرکے اسے 1.5 ڈگری سیلسیئس سے زیادہ نہ بڑھنے دیا جائے۔

جرمن وزیر برائے ترقیات نے یہ تبصرہ ماحولیاتی تبدیلی کے متعلق بین حکومتی پینل (آئی پی سی سی) کی طرف سے گلوبل وارمنگ کے اثرات کے حوالے سے جاری کردہ نئی جائزہ رپورٹ پر کیا ہے۔

 آئی پی سی سی کی رپورٹ میں سائنس دانوں نے متنبہ کیا ہے کہ اگر گرین ہاوس گیسوں کے اخراج کو ”فوراً، تیزی سے اور بڑے پیمانے پر” کم نہ کیا گیا تو پیرس ماحولیاتی معاہدے کے اہداف حاصل نہیں کیے جا سکتے۔

میولر کا کہنا تھا،”ہمیں ایک عالمی سبز معاہدے کی ضرورت ہے۔ قابل تجدید توانائیوں کے لیے بڑے پیمانے پر نجی سرمایہ کاری نیز ٹیکنالوجی کی منتقلی اور ابھرتی ہوئی نیز ترقی پذیر ملکوں میں صنعتی ترقی یافتہ ملکوں کی طرف سے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔”

میولر نے عالمی بینک، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور دیگر ترقیاتی بینکوں کے علاوہ یورپی یونین سے بھی اس حوالے سے تیزی سے قدم بڑھانے پر زور دیا۔

جرمن وزیر کا کہنا تھا،”کوئلے سے چلنے والے بجلی کے نئے کارخانے دنیا بھر میں بنائے جا رہے ہیں یا بنانے کا منصوبہ ہے۔ اگر’ماحولیات کے یہ قاتل‘ کام کرنے لگے تو ہم پیرس ماحولیاتی معاہدے کے اہداف کبھی حاصل نہیں کرسکیں گے۔“

یہ ہنگامی حالت ہے، گریٹا تھن برگ
ماحولیات کے لیے سرگرم کارکن گریٹا تھن برگ نے ٹوئٹر پر لکھا،”یہ رپورٹ صرف ان باتوں کی تصدیق کرتی ہے جو ہم ہزاروں رپورٹوں اور تحقیقات سے پہلے ہی جان چکے ہیں کہ یہ ایک ہنگامی حالت ہے۔”

انہوں نے لکھا،”ہم اب بھی سب سے بھیانک انجام سے بچ سکتے ہیں لیکن جو کچھ ابھی ہو رہا ہے اس سے نہیں۔ اور بحران کو بحران کی طرح سمجھے بغیر بھی نہیں۔”

خطرے کی گھنٹی، انٹونیو گوٹیریس
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریس نے اس رپورٹ کو انسانیت کے لیے ‘کوڈ ریڈ‘ یعنی خطر ے کی گھنٹی بتایا۔ انہوں نے کہا،”اس سے پہلے کہ کوئلہ اور Fossil Fuel کرہئ ارض کو تباہ کردے، اس رپورٹ کو ان کے لیے موت کی سزا کا اعلان بن جانا چاہئے۔”

 ماحولیاتی امور پر امریکی سفیر جان کیری نے کہا کہ آئی پی سی سی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ اب اور زیادہ تاخیر نہیں ہونی چاہیے اور ماحولیاتی تبدیلی ہمارے کرہ ارض کو غیر معمولی طورپر متاثر کر رہی ہے جس کے اثرات مہلک ہیں اور یہ ہمیں دکھائی بھی دے رہے ہیں جیسے کہ گرمی، بارش، جنگلوں میں آگ اور خشک سالی پہلے سے کہیں زیادہ ہو رہے ہیں اور پہلے سے زیادہ سنگین نوعیت کے ہیں۔”

اپنے ملک میں کوئلے کی کانوں کو کھولنے کے منصوبے کی مخالفت کا سامنا کرنے والے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا،”ہم جانتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ کو روکنے کے لیے کیا کیا جانا چاہئے۔ کوئلے کو تاریخ میں بند کرکے توانائی کے نئے وسائل کی طرف بڑھنا ہوگا۔ فطرت کی حفاظت کرنی ہوگی اور اس محاذ پر سب سے آگے کھڑے ملکوں کو ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے فنڈ مہیا کرانا ہوگا۔

یورپی یونین میں گرین ڈیل کے سربراہ نے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا،”اگر ہم ابھی فیصلہ کن قدم اٹھائیں تو بہت تاخیر نہیں ہوئی ہے۔”

 جرمن گرین پارٹی کی طرف سے سن 2021 کے انتخابات میں چانسلر کی امیدوار انالینا بائربوک نے بھی آئندہ نومبر میں اسکاٹ لینڈ کے گلاسگو میں ہونے والی سی او پی 26 ماحولیاتی تبدیلی کانفرنس سے قبل گلوبل وارمنگ کے خلاف بین الاقوامی رابطہ میں اضافہ کرنے کی اپیل کی۔

انہوں نے متنبہ کیا،”گلاسگو میں ماحولیاتی کانفرنس کو ماحولیات کے حوالے سے ایک اہم موڑ بننا چاہئے۔ اس کے بعد ہی موجودہ تین ڈگری سے زیادہ سے 1.5 ڈگری کے پیرس اہداف کے راستے پر آگے بڑھنے کے ہمارے امکانات ہوسکتے ہیں۔”

گرین پارٹی کی سربراہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ جرمنی میں قابل تجدید توانائی میں تیزی سے توسیع کرنے اور ایک ”ماحولیاتی خارجہ پالیسی” پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

ماحولیات کے تحفظ کو جرمنی کے بنیادی قانون کا حصہ بنایا جائے
جرمن وزیر برائے ماحولیات نے آئی پی سی سی کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ ہمیں آنے والے دنوں میں جرمنی میں انتہائی سخت اور سخت ترین موسمی حالات کے لیے خود کو تیار رکھنا ہوگا۔”ہم انہیں ٹال نہیں سکتے کیوں کہ جو ماحولیاتی تبدیلیاں ہوچکی ہیں ہم انہیں دوبارہ پلٹ نہیں سکتے۔ تاہم ہم ان کی رفتار کو کچھ کم کرسکتے ہیں۔”

جرمن وزیربرائے ماحولیات نے ملکی سطح پر بھی زیادہ وسیع اقدامات کی اپیل کی اور کہا کہ جرمنی کو اس حوالے سے اپنے آئین میں ترمیم کرنا ہوگا تاکہ وفاقی حکومت ماحولیاتی تبدیلی کی مضمرات پر قابو پانے کے لیے زیادہ سے زیادہ اقدامات کرسکے۔

Facebook Comments