جمعہ 03 مئی 2024

کابل سے لوگوں کا انخلا، جرمن فوجی مشن زیر بحث

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی حکومت منصوبہ بنا رہی ہے کہ اس شورش زدہ ملک سے جرمن شہریوں اور ایسے مقامی لوگوں کو نکال لیا جائے، جو گزشتہ بیس برسوں کے دوران جرمن فوج اور سفارتی عملے کے ساتھ کام کرتے رہے تھے۔ طالبان کی طرف سے ملک پر قبضے کے بعد ایسے خدشات ہیں کہ بہت سے افغان شہریوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

گزشتہ شب صدر اشرف غنی کے ملک چھوڑ دینے کے بعد طالبان کے جنگجوؤں نے اپنی جیت کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغان عوام کو خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ طالبان کے شریک بانی ملا بردار غنی نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں مغربی ممالک کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ایسے کسی شخص سے بدلہ نہیں لیں گے، جنہوں نے گزشتہ بیس برسوں کے دوران امریکی اتحادی افواج کے ساتھ تعاون کیا تھا۔

 کابل کے محاصرے پر شہر میں خوف پھیل گیا
طالبان جنگجوؤں کے اہم رہنما ملا بردار نے مزید کہا کہ وہ سب شہریوں کی سکیورٹی کو یقینی بنائیں گے۔ تاہم افغان عوام میں اس بیان کے حوالے سے شکوک و شبہات پائے جا رہے ہیں۔ مغربی ممالک میں بھی ايسے خدشات پائے جاتے ہيں کہ طالبان انسانی حقوق کے کارکنان بالخصوص خواتین کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ کابل میں اس وقت انتہائی بے یقینی کی صورتحال ہے جبکہ افراتفری کے عالم میں خوف کی فضا پائی جا رہی ہے۔

اسی تناظر میں پیر کے دن جرمن پارلیمان سے ایک ایسے مینڈینٹ کے حصول کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کے تحت کابل میں جرمن فوجی تعنیات کیے جائیں، جو خطرات کے شکار مقامی لوگوں کو بھی وہاں سے نکال سکیں۔خبر رساں ادارے اے ایف پی نے پارلیمانی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس مشن کے تحت ‘کئی سو فوجیوں‘ کو کابل میں عارضی طور پر تعینات کیا جا سکتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق افغانستان میں دو ہزار ایسے لوگ ہیں، جنہیں وہاں سے کسی دوسرے ملک منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ امریکا کے ساتھ مشاورت کے بعد بتایا گیا ہے کہ ان افراد کے انخلا کا عمل اکتیس اگست تک مکمل کیا جا سکتا ہے۔ تاہم برلن حکومت اپنا عارضی مشن اس تاریخ سے قبل ہی ختم کر سکتی ہے۔

ادھر اتوار کی رات جرمن فوج کا ایک طیارہ کابل روانہ ہوا، جہاں سے وہ لوگوں کے انخلا کا آپریشن شروع کر چکا ہے۔ اتوار کی شام ایک مختصر بیان میں ماس نے کہا تھا کہ جرمن فوجی طیارہ کابل سے لوگوں کو لے کر ہمسایہ ممالک لے جائے گا، جہاں سے انہيں مسافر پروازوں کے ذریعے جرمنی لايا جائے گا۔

وزير خارجہ ہائیکو ماس نے کہا کہ کابل میں موجود جرمن عملے کے کچھ ارکان اتوار کی رات ہی واپس روانہ ہو گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ کابل میں جرمن سفارت خانے کے عملے اور مقامی سطح پر جرمنی کے لیے کام کرنے والے افراد کی سکیورٹی جرمن حکومت کی اولین ترجیح ہے۔

Facebook Comments