پیر 07 اکتوبر 2024

دنیا کا قدیم ترین سوشل ہاؤسنگ منصوبہ، سالانہ کرایہ 88 سینٹ

جرمن علاقے فوگری (فوگیرائے) کی رہائش گاہیں اب یہاں آنے والے سیاحوں کی نگاہوں کا بھی مرکز رہتی ہیں۔ یہ علاقہ شہر آؤگسبرگ میں واقع ہے۔ لیکن صوبے باویریا کی یہ دلکش بستی ایک سوشل ہاؤسنگ منصوبے سے بھی کچھ زیادہ ہے۔ ضرورت مند افراد کے لیے یہ سستی رہائش گاہوں کا منصوبہ گزشتہ پانچ سو برسوں سے جاری ہے۔ مجموعی طور پر 67 گھر ہیں اور ان میں تقریبا 150 پچاس ضرورت مندوں کے لیے 142 رہائش گاہیں ہیں۔

اس منصوبے کی بنیاد 23 اگست 1521ء کو آؤگسبرگ کے تاجر یاکوب فوگر نے رکھی تھی۔ تاہم جو ان سستی رہائش گاہوں میں رہنا چاہتا ہے، اسے کچھ شرائط پر پورا اترنا ہوتا ہے۔ اُس وقت غرباء کے لیے تعمیر کیے گئے ان گھروں میں ان مزدوروں اور کاریگروں کو رکھا جاتا تھا، جن کی زندگی کا انحصار ان کی یومیہ آمدنی پر ہوتا تھا۔ یہ رہائش گاہیں ایسے لوگوں کے لیے تھیں، جو باعزت زندگی گزارنے کے خواہش مند تھے اور کام کاج کی تلاش میں رہتے تھے۔ یاکوب فوگر کے مطابق بھیک مانگنے والے افراد کے لیے یہاں کوئی گنجائش نہیں تھی کیوں کہ ان کے لیے چرچ اور شہری انتظامیہ کام کر رہی تھی۔ علاوہ ازیں یہ شرائط بھی رکھی گئی تھیں کہ رہائشیوں کا تعلق آؤگسبرگ سے ہی ہونا چاہیے، ان کا عقیدہ کیتھولک ہو اور انہیں بانی تاجر کی روح کے لیے دن میں تین مرتبہ دعا کرنا ہو گی۔

 علاوہ ازیں یہاں کے رہائشیوں کو سالانہ کرایہ بھی ادا کرنا پڑتا تھا، جو اس وقت کے مطابق ایک کاریگر یا مزدور کی ایک ہفتے کی کمائی کے برابر ہوتا تھا۔ تاہم گزشتہ پانچ سو برسوں سے کرایے میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ اُس وقت کے حساب سے یہ اب سالانہ اٹھاسی سینٹ بنتے ہیں۔ ابھی بھی قانون یہی ہے کہ یہاں کے رہائشیوں کو دن میں تین مرتبہ اس منصوبے کے بانی کے لیے دعا کرنا ہے۔ تاہم کوئی ایسا کرتا ہے یا نہیں، اس حوالے سے کبھی کسی سے پوچھ گچھ نہیں کی گئی۔

اب یہاں کون لوگ رہتے ہیں؟
ستائیس سالہ نوئل گاؤباڈیا دس سال سے بھی زائد عرصے سے فوگری میں رہائش پذیر ہے۔ ان کی والدہ کی مالی حالت بہتر نہیں تھی اور وہ اپنے دونوں بچوں کے ہمراہ یہاں رہائش پذیر ہو گئی تھیں۔ نوئل گاؤباڈیا کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”جب ہم یہاں آئے تھے تو یہاں زیادہ تر عمررسیدہ افراد ہی قیام پذیر تھے۔ میں ان کے بارے میں فکرمند بھی ہوتا تھا۔ ہم یہاں آنے والی پہلی فیملی تھے، جن کا تعلق کسی دوسرے ملک سے تھا۔‘‘

ان رہائش گاہوں کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ہمسائے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہیں اور ایک دوسرے کی ضرورتوں کا خیال رکھیں۔ نوئل گاؤباڈیا بتاتے ہیں، ”ہمارا کام ایک دوسرے سے گپ شپ لگانا ہوتا تھا۔ ہم ایک ساتھ بیٹھ جاتے تھے، کبھی کبھار کھانا ساتھ کھاتے تھے اور ٹی وی وغیرہ ایک ساتھ دیکھتے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ کو اپنی ہی کوئی دوسری فیملی مل چکی ہے۔‘‘

 اسی طرح اکہتر سالہ ایلونا باربر بھی یہیں رہتی ہیں۔ اس خاتون کی پنشن اتنی کم تھی کہ اخراجات پورے نہیں ہو رہے تھے۔ اس عمر رسیدہ خاتون کو پچپن مربع میٹر کا فلیٹ ملا ہوا ہے اور اب وہ اپنی دو بلیوں اور پانچ پرندوں کے ساتھ فوگری میں رہتی ہیں۔ فوگری کے رہائشیوں سے یہ بھی امید کی جاتی ہے کہ جب کبھی ضرورت پڑے تو وہ انتظامیہ کا ساتھ دیں۔ مثال کے طور پر اگر گھاس کاٹنی ہو یا پھر رات کو کبھی کبھار نگرانی کا کام کرنا ہو تو مقامی رہائشیوں سے ہی درخواست کی جاتی ہے۔ اس کالونی کا بیرونی گیٹ رات دس بجے بند کر دیا جاتا ہے اور جو کوئی بھی اس کے بعد کالونی میں داخل ہونا چاہے، اسے چوکیدار کو پچاس سینٹ ادا کرنا ہوتے ہیں۔

مستقبل پر ایک نظر
آغاز میں رہائشیں کم تھیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اور ضرورت کے مطابق گھروں میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ دوسری عالمی جنگ میں بنکر بھی بنائے گئے تاکہ یہاں کے رہائشی محفوظ رہیں۔ تئیس اگست کو اس منصوبے کے پانچ سو برس پورے ہونے پر یہاں کے سبھی رہائشی بہت خوش ہیں۔ یہاں کی انتظامیہ کی خواہش ہے کہ اس کامیاب ماڈل کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا بھر میں ایسے منصوبوں کا آغاز ہونا چاہیے۔ فوگری فاؤنڈیشن کا انتظام ابھی تک فوگر خاندان کے ہاتھ میں ہے۔ کیا مستقبل میں بھی اس کا انتظام اسی امیر خاندان کے ہاتھ میں رہے گا یا پھر اس فاؤنڈیشن کو حکومت کے زیرانتظام لانا چاہے، اس کا جواب ابھی کسے کے پاس نہیں ہے۔

Facebook Comments