منگل 30 اپریل 2024

یہ توہین عدالت کی کارروائی نہیں، میرا…؟ ، رانا شمیم کا بیان

اسلام آباد ( دھرتی نیوز ) رانا شمیم کے بیان حلفی پر توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ آپ اسے توہین عدالت کی کارروائی نہیں سمجھیں ، یہ میرا احتساب ہو رہا ہے ۔

سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے بیان حلفی پر توہین عدالت کے کیس کی سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کی ۔ ایڈوو کیٹ جنرل ، صحافی انصار عباسی ، عامر غوری اور سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم اپنے وکیل لطیف آفریدی سمیت عدالت پیش ہوئے ۔ عدالت میں لندن سے آیا کورئیر کا ڈبہ پیش کیا گیا ، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ابھی تک سربمہر ہے ، بیان حلفی کو کھولا نہیں گیا ، اٹارنی جنرل اس وقت عدالت میں موجود نہیں ہیں ۔

چیف جسٹس نے کورئیر کا ڈبہ رانا شمیم کے وکیل کو دینے کا کہا مگر لطیف آفریدی نے سربمہر بیان حلفی لینے سے معذرت کر لی ۔ لطیف آفریدی نے کہا کہ عدالتی حکم پر بیان حلفی منگوایا گیا ہے ،چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو باکس اسلام آباد ہائیکورٹ کو موصول ہوا ہے اسے مزید سیل کرتے ہیں ، اسے اٹارنی جنرل کی موجودگی میں کھولنا ہے ابھی ؟، لطیف آفریدی نے کہا کہ میں نے دیکھ لیا ہے ، باکس سو فیصد سیل ہے ۔عدالت نے کہا کہ یہ باکس آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل کی موجودگی میں کھولا جائے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ ایک اوپن انکوائری ہے ، رانا شمیم نے اس عدالت کے ججز پر الزام لگایا ہے ، یہ کورٹ انصار عباسی سے ذرائع کے بارے میں نہیں پوچھے گی ، عدالت کو تنقید سے کوئی گھبراہٹ نہیں ، تنقید ضرور کریں ، تین سال بعد ایک بیان حلفی دیا گیا جس میں عدالت کو نشانہ بنایا گیا ، اخبار کی اشاعت سے ایک سینئر جج کو نشانہ بنایا گیا ، آپ کو موقع دیتے ہیں ، آپ عدالت کو مطمئن کریں ، اگر آپ نے عدالت کو مطمئن کرلیا تو کیس واپس لے لیں گے ۔

رانا شمیم کے وکیل نے کہا کہ پہلے بھی کہا پھر کہتے ہیں کہ ہم نے بیان حلفی میڈیا یا کسی اور کو نہیں دیا ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے موکل کہتے ہیں سارے ججز یا پورا اسلام آباد ہائیکورٹ کسی کے حکم پر چلتاہے ؟، اس ہائیکورٹ یا یہاں کے کس جج پر کوئی انگلی اٹھائے ، میں چیلنج کرتاہوں ۔ وکیل لطیف آفریدی نے کہا کہ ہم نے کب کہا کہ جج کسی کے اشارے پر چلتے ہیں ، انگلی اٹھانے والے ریمارکس میڈیا میں جاتے ہیں ، جو غلط تاثر دیتا ہے ۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر بیان حلفی پبلک نوٹری سے لیک ہوا تو وہاں کوئی کارروائی ہوئی ؟، اگر کہے گئے الفاظ میں تھوڑی سی سچائی ہے تو ثبوت پیش کریں ، ایک ادارے کے رپورٹر کیخلاف متفرق درخواست بھی آئی ہے ، ہائیکورٹ نے ایک پریس ریلیز جاری کیا ، کسی ادارے کا نام نہیں لیا گیا۔

عدالت نے سیکرٹری جنرل پی ایف یو جے ناصر زیدی بھی پیش ہوئے اور عالمی عدالتوں کے حوالے پیش کر دیے ، ناصر زیدی نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی پر توہین عدالت نہیں لگ سکتی ۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ اظہار رائے کی آزادی مفاد عامہ کیخلاف جائے تو پھر بات مختلف ہوتی ہے ۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پاکستان کے آئین میں بھی ایسا ہی ہے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسا تو نہیں ہو سکتا کوئی بیان حلفی بنا لے اور کسی مقصد کیلئے اخبار استعمال ہو ، اس عدالت نے ہمیشہ اظہار رائے کی آزادی کی حمایت کی ہے ، لوگوں کو یہ تاثر دیا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کمپرومائزڈ ہیں ، یہ عام روٹین کا معاملہ نہیں ،کیا آپ چاہتے ہیں کہ کوئی عدالت کے بارے میں کچھ کہہ دے تو آپ اسے چھاپ سکتے ہیں؟

Facebook Comments