پیر 29 اپریل 2024

بےحیائی، وبائیں اور ہماری سزا

بےحیائی، وبائیں اور ہماری سزا

جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وبائیں قوم کی اجتماعی بےحیائی کے نتیجے میں نازل ہوتی ہیں تو اِس باہمی تعلق کو ثابت کرنا بھی اسی کا کام ہے، یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ محض ایک دعویٰ کرکے ہم بیٹھ جائیں اور اُس کے بعد لوگوں سے امید رکھیں کہ وہ اِس دعوے کو بلا چوں و چراں محض اس لیے تسلیم کر لیں کیونکہ یہ بات فلاں عالم نے کہی ہے اور اُس سے زیادہ کوئی علم نہیں رکھتا۔

 اِس ضمن میں جو دلیل دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں جا بجا اُن قوموں کا ذکر ہے جو خدا کی نافرمانی، برے اعمال اور اپنی بے حیائی کی وجہ سے اللہ کے عذاب کا شکار ہوئیں لہٰذا اِس میں بحث کی کیا گنجائش! یہ بات درست ہے کہ قرآن مجید کی بہت سی آیات میں اللہ کے عذاب کا ذکر ہے جو مختلف قوموں پر نازل ہوا لیکن اگر ہم اِن تمام آیات کو غور سے پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ جب بھی مختلف قوموں پر عذاب آیا اُس میں گیہوں کے ساتھ گھن کو نہیں پیس دیا گیا بلکہ نیکو کاروں کو بچا لیا گیا اور اللہ کے نہ ماننے والوں کو سزا دی گئی۔

مثلاً ’’پھر جب ہمارا حکم آ گیا تو ہم نے اپنی رحمت سے ہودؑ کو اور اُن لوگوں جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے، نجات دے دی اور ایک سخت عذاب سے انہیں بچا لیا‘‘۔ (سورۃ ھود، آیت 58)۔ ’’آخرکار جب ہمارے فیصلے کا وقت آ گیا تو ہم نے اپنی رحمت سے صالحؑ کو اور اُن لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے، بچا لیا اور اُس دن کی رسوائی سے اُن کو محفوظ رکھا‘‘۔ (سورۃ ھود، آیت 66)۔ ’’آخر کار جب ہمارے فیصلے کا وقت آ گیا تو ہم نے اپنی رحمت سے شعیبؑ اور اس کے ساتھی مومنوں کو بچا لیا اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا، ان کو ایک سخت دھماکے نے ایسا پکڑا کہ وہ اپنی بستیوں میں بے حس و حرکت پڑے کے پڑے رہ گئے۔ گویا وہ کبھی وہاں رہے بسے ہی نہ تھے۔ (سورۃ ھود، آیت 94)۔

یہ صرف نمونے کی تین آیات ہیں، پوری سورۃ ھود میں یہ مثالیں اللہ تعالیٰ نے پوری تفصیل اور صراحت کے ساتھ کھو ل کر بیان کر دی ہیں اور ان میں رتی برابر بھی ابہام نہیں، قرآن کھولیے اور خود پڑھ لیجیے۔ یہ اللہ کی شان اور صفات اور اُس کے انصاف اصولوں کے ہی خلاف ہے کہ وہ اپنا عذاب نازل کرے اور اُس میں اُن لوگوں کو بھی مار ڈالے جو اُس پر ایمان رکھتے ہوں اور عمل صالح کرتے ہوں۔

لہٰذا جس وبا، آفت، زلزلے، سیلاب میں نیک و بد، ایمان والے اور غیر مسلم، بلا تفریق مارے جائیں وہ کسی صورت اللہ کا عذاب نہیں ہو سکتے کہ یہ بات قرآن کے آفاقی پیغام سے مطابقت نہیں رکھتی۔

یہاں ایک چیز کی وضاحت ضروری ہے کہ اللہ نے آخری مرتبہ اپنا عذاب مشرکین مکہ پر نازل کیا جس کی وعید اللہ کے آخری نبی محمد رسول اللہﷺ نے دی، رسول اللہﷺ کے ساتھ ہی چونکہ نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا اِس لیے اب اِس دنیا میں کوئی عذاب نہیں آئے گا، اب یہ عذاب روزِ قیامت برپا ہوگا کیونکہ یہی اصول قرآن میں بیان کیا گیا ہے اور یہی مذہب کا مقدمہ ہے۔

اگر خدا نے ہر نافرمانی، بے حیائی اور فراڈ کی سزا فوراً عذاب کی شکل میں اسی دنیا میں دینی ہے تو پھر روزِ قیامت جزا اور سزا کا بندوبست کس واسطے، پھر تو اسی دنیا میں حساب چکتا ہوگیا، جبکہ ہر مسلمان یہ جانتا ہے کہ گناہگار اور نیکوکار کا فیصلہ آخرت میں ہو گا، اِس دنیا میں نہیں۔ قرآن کی واضح آیات کے بعد اب کسی مفروضے کی چنداں ضرورت رہ تو نہیں جاتی لیکن پھر بھی اگر ہم فرض کر لیں کہ بے حیائی اور عذاب کا آپس میں کوئی تعلق ہے جیسے کہ 2005کے زلزلے کے بارے میں بھی اُس وقت کہا گیا تھا کہ یہ خدا کا عذاب ہے، تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ اِس طرح کے زلزلے آئے دن دوسرے سیاروں پر بھی آتے ہیں، وہاں کون سے نیوز چینل چل رہے ہیں جن کے ذریعے بےحیائی پھیلائی جا رہی ہے۔

 مریخ میں کون سے کلب اور ڈسکو کھلے ہیں، عطارد پر کون سی عورتیں کھلے گلے پہن کر پھر رہی ہیں، وہاں کون ہم جنس پرستی کر رہا ہے؟ چلیں مریخ سے واپس پاکستان آتے ہیں، خدا جھوٹ نہ بلوائے تو سن ساٹھ اور ستّر کی دہائی میں یہاں زیادہ ’’بےحیائی‘‘ تھی، اُس وقت کوئی وبا کیوں نہیں پھوٹی اور 1935ء میں کوئٹہ جیسے مسکین شہر میں ایسا کیا ہو رہا تھا کہ پورا شہر زلزلے نے ملیا میٹ کر دیا اور بنگلا دیش کے بھوکے ننگے بنگالی ایسی کیا بے حیائی کرتے تھے کہ اُن پر ہر سال سیلاب کا عذاب آ جاتا تھا؟

 ان تمام باتوں کو چھوڑیں، اِس کا فیصلہ کون کرے گا کہ اب ملک میں بے حیائی، فحاشی اور عریانی ختم ہو گئی، کیا کوئی جنرل ضیاء الحق بتائے گا؟ ویسے اُس زمانے میں تو بے حیائی نام کی بھی نہیں تھی، مہ پارہ صفدر سر پر دوپٹہ اوڑھ کر خبریں پڑھتی تھی اور ڈرامے میں خالدہ ریاست چادر اوڑھ کر سوتی تھی، اِس کے باوجود اوجڑی کیمپ کا حادثہ ہو گیا، سینکڑوں بےگناہ افراد مارے گئے، عین ممکن ہے کہ اُس روز مہ پارہ صفدر کا دوپٹہ کھسک گیا ہو یا خالدہ ریاست پلنگ پر سوتے وقت چادر لینا بھول گئی ہو!

حضرت عمرؓ کے دورِ حکومت میں شام، عراق اور مصر کے علاقوں میں طاعون کی وبا پھیل گئی، ایک اندازے کے مطابق اِس میں کم از کم پچیس ہزار مسلمان فوجی جاں بحق ہوئے، اِن میں صحابہ کرامؓ بھی تھے، طاعون کے بعد قحط بھی پھیلا، اور یہ سب عمرؓ ابن خطاب کے زمانے میں ہوا جو خلافت کا آئیڈیل دور تھا، اب کیا نعوذ باللہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اُس وقت بےحیائی یا فحاشی تھی جس کی وجہ سے طاعون پھیلا اور قحط پڑا؟

ہمیں خدا کا خوف کرنا چاہیے، کیوں ہم دنیا میں اپنا مذاق اڑوانے پر تلے ہیں، پوری دنیا میں بایولوجی او ر وائرولوجی میں تحقیق ہو رہی ہے اور ہم یہ بحث کر رہے ہیں کہ یہ وبا ہماری بے حیائی کی وجہ سے پھیلی۔ بے حیائی کی سزا تو ہمیں روزِ قیامت ملے گی، جہالت کی سزا البتہ ہم آج دنیا میں ہی بھگت رہے ہیں!

Facebook Comments