بدہ 15 مئی 2024

نسل پرستی پر گرما گرم بحث چھوٹے سے جرمن قصبے تک پہنچ گئی

نسل پرستی پر گرما گرم بحث چھوٹے سے جرمن قصبے تک پہنچ گئی

جرمن صوبے باویریا کے ایک چھوٹے سے قصبے کوبُرگ کے امتیازی نشان پر بحث شدید تر ہو گئی ہے۔ اس نشان کو دو خواتین نے ’نسلی امتیاز‘ کا عکاس قرار دے کر اس کے ہٹائے جانے کی مہم شروع کر رکھی ہے۔

جنوبی جرمن صوبے باویریا کے شمال میں واقع کوبُرگ قدیم وضع کا ایک بہت جاذبِ نظرقصبہ ہے، لیکن اس قصبے کو 'بلیک لائیوز مَیٹر‘ نامی تحریک نے بے چین کر دیا ہے۔ کوبُرگ شہر کے روایتی نشان یا کوٹ آف آرمز (Coat of Arms) سے متعلق مقامی آبادی میں واضح حد تک تقسیم محسوس کی جا رہی ہے۔

اس امتیازی نشان پر تنقید کرنے والوں کا خیال ہے کہ یہ نسلی امتیاز پر مبنی ایک امیج ہے۔ کوبُرگ کے مرکزی نشان پر تیسری صدی عیسوی کی معروف مسیحی مذہبی شخصیت سینٹ موریس کی شبیہ بنی ہوئی ہے۔

سینٹ موریس کا تعلق قدیم مصر کے شہر تھیبیس سے تھا اور قبطی مسیحی برادری ان سے گہری عقیدت رکھتی ہے۔ اس امتیازی نشان میں ان کی صورت روایتی سیاہ فام افریقی باشندوں جیسی نظر آتی ہے۔ یہ عکس اس پورے قصبے میں جا بجا دکھائی دیتا ہے۔

'کوبُرگ کا مُور‘

اس امیج کو نسلی امتیاز کی علامت قرار دینے کی مہم جرمن دارالحکومت برلن کی دو خواتین ژولیانے روئتھر اور علیشا آرچی نے شروع کی ہے۔ ان دونوں خواتین کا تعلق 'بالائی فرانکونیا‘ کے علاقے سے ہے، جو کوبُرگ کے نزدیک ہی واقع ہے۔

Coburg Rathaus Ziergitter mit Mohr-Motiv

کوبُرگ کے ٹاؤن ہال کے دروازے کے جنگلے تک پر سینٹ موریس کی شبیہ بنی ہوئی ہے

ان خواتین کا موقف ہے کہ یہ نشان نوآبادیاتی دور کی علامت ہے۔ انہوں نے ایک آن لائن مہم بھی شروع کر رکھی ہے اور ان کی کاوشوں کا مقصد یہ مطالبہ تسلیم کروانا ہے کہ کوبُرگ کا کوٹ آف آرمز دوبارہ ڈیزائن کیا جائے۔ اس مہم کی بانی علیشا آرچی کے بقول یہ نشان نسلی تعصب کو ظاہر کرتا ہے اور اس کے لیے آج کی دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

کوبُرگ کے شہری سینٹ موریس کی شبیہ والے نشان کو عرف عام میں 'کوبُرگ مُور‘ بھی کہہ کر پکارتے ہیں۔ کئی مقامی باشندے اس امتیازی نشان کی تبدیلی کی مہم پر مایوسی کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ ایک مقامی شہری نے کہا کہ یہ 'مُور‘ آج کے کوبُرگ کا ہر حوالے سے ایک حصہ ہے۔ ایک اور شہری کا کہنا تھا، ''برلن میں آرچی اور روئتھر کے پاس بہت زیادہ فالتو وقت ہے، انہیں کوئی اور کام بھی کرنا چاہیے۔‘‘

کوبُرگ کے میئر کے دفتر میں اس بحث اور مہم کا کوئی واضح نوٹس نہیں لیا گیا۔ اس دفتر نے اس مہم کو بے معنی اور بے وقعت قرار دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی کوبُرگ کی 'محافظ مذہبی شخصیت‘ کے بارے میں نسلی تعصب کی بات کر ہی نہیں سکتا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ اس چھوٹے سے شہر کا 'پیٹرن سینٹ‘ سیاہ فام ضرور ہے لیکن وہ ہر لحاظ سے باعث عزت و تکریم ہے۔

Coburg das Mohr Wappen auf einem Gullydeckel

قصبے میں گٹر کے ڈھکنوں تک پر اس چھوٹے سے شہر کا امتیازی نشان اور سینٹ موریس کی تصویر بنی ہوئی ہے

تاریخِ ثقافت کے ماہرین کا موقف

تاریخِ ثقافت کے ماہر محقق ہُوبیرٹُس ہابیل کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا موضوع کوبُرگ کے مختلف امتیازی نشانات کی ثقافتی تاریخ کا کھوج لگانا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ کوبُرگ کے کوٹ آف آرمز پر شبیہ یقینی طور پر ایک سیاہ فام کرسچین سینٹ کی ہے، جنہیں اپنے عقیدے سے گہرے لگاؤ کی بنیاد پر قتل کر دیا گیا تھا۔

ہابیل کے مطابق اس نشان پر یہ شبیہ نسلی امتیاز کو ظاہر نہیں کرتی بلکہ یہ اس صدیوں پرانی مسیحی مذہبی شخصیت کے ساتھ محبت اور عقیدت کے اظہار کا طریقہ ہے۔

ایک اور ریسرچر سوزن آرنٹ پوری طرح ہابیل کے اس خیال سے اتفاق نہیں کرتیں کہ یہ کوئی مثبت نشان ہے۔ آرنٹ کا تعلق جنوبی جرمنی کی بائےروئتھ یونیورسٹی سے ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ آغاز ہی سے سفید فام مسیحی پس منظر میں دیا جاناے والا ایک امتیازی حوالہ ہے، جسے کبھی بھی مثبت قرار نہیں دیا جا سکتا۔

'کوبُرگ کا مُور یہیں رہے گا‘

اس مہم کے حق اور مخالفت میں دلائل کے باوجود کوبُرگ کی بلدیاتی کونسل فی الحال اس معاملے پر بحث پر آمادہ دکھائی نہیں دیتی۔

اس امتیازی نشان کو تبدیل کر دینے کے حوالے سے پیش کی گئی متعدد درخواستیں مسترد کی جا چکی ہیں۔ بظاہر مخالفت جاری ہے لیکن قصبے کے کوٹ آف آرمز کا موجودہ ڈیزائن برقرار رکھنے کے حامی بھی اب سامنے آنے لگے ہیں۔

اب مقامی شہریوں نے ایک ایسی مہم کا آغاز بھی کر دیا ہے، جس کا نام ہے، ''کوبُرگ کا مُور یہیں رہے گا۔‘‘

اس مہم کے حامی شہریوں کی تعداد بتدریج بڑھتی جا رہی ہے۔ جرمنی میں آباد سیاه فام افراد کو لفظ 'مُور‘ پر اعتراض ہے، جو اب متروک ہو چکا ہے لیکن سینٹ موریس کے احترام کو وہ بھی اہم سمجھتے ہیں۔

Facebook Comments