اتوار 19 مئی 2024

ڈین جونز، پہلی یاد سے آخری یاد تک!

ڈین جونز، پہلی یاد سے آخری یاد تک!

یہ مارچ 1992ء تھا۔ قومی ٹیم ورلڈ کپ میں اپنے ابتدائی 5 میچوں میں سے صرف ایک ہی جیت سکی تھی اور اب اس کو پرتھ میں میزبان آسٹریلیا کا سامنا کرنا تھا جبکہ غلطی کی کوئی گنجائش نہیں تھی بلکہ اس میچ کے بعد باقی تمام مقابلے بھی جیتنا تھے۔

مجھے یاد ہے کہ ہم بھی یہ اہم ترین مقابلہ دیکھنے کے لیے ابو کے ساتھ علی الصبح جاگ اٹھے تھے۔ آسٹریلیا 221 رنز کے تعاقب میں صرف 31 رنز پر دوسری وکٹ سے محروم ہوا تو ابو نئے بیٹسمین کو میدان میں آتا دیکھ کر بولے ’اب اس کو آؤٹ کردیا تو سمجھو پاکستان آدھا میچ تو یہیں جیت جائے گا‘۔ یہ ڈین جونز تھے۔

کچھ ہی دیر میں مجھے پورا اندازہ ہوگیا کہ آخر ابو نے ایسا کیوں کہا تھا۔ ڈین جونز کی آمد کے بعد لگ رہا تھا کہ پاکستان ورلڈ کپ میں مسلسل چوتھا میچ بھی ہار کر ٹورنامنٹ سے باہر ہوجائے گا کیونکہ انہوں نے جیف مارش کے ساتھ مل کر اسکور کو 116 رنز تک پہنچا دیا تھا۔ اب آسٹریلیا کو 100 سے کچھ اوپر رنز ہی درکار تھے اور اس کی 8 وکٹیں بھی باقی تھیں۔ تب مشتاق احمد نے جونز کو 47 رنز پر آؤٹ کردیا اور یہیں سے میچ نے پلٹا کھا لیا۔

پاکستان نے آخری 8 وکٹیں صرف 56 رنز کے اضافے سے حاصل کیں اور میچ جیت کر ورلڈ کپ میں اپنی امیدیں زندہ رکھیں اور بعد میں فائنل جیت کر ورلڈ چیمپیئن بھی بنا۔ آسٹریلیا یہ میچ تو ہار گیا لیکن ڈین جونز

اس اننگز کے ساتھ میرے ذہن میں اپنی پہلی یاد چھوڑ گئے، اور ان کی آخری یاد؟ وہ لمحہ جب انہوں نے میرے ساتھ پورے پاکستان کے بھی دل جیت لیے۔

یہ فروری 2020ء میں میرا اپنا شہر کراچی تھا کہ جس کے نیشنل اسٹیڈیم میں پشاور زلمی اور ڈین جونز کی ٹیم کراچی کنگز مقابل تھے۔ مقابلہ میزبان کراچی نے باآسانی جیتا اور میچ کے اختتام کے بعد ہم نے دیکھا کہ ڈین جونز کوڑا کرکٹ اٹھا کر کوڑے کے ڈبے میں ڈال رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ ایک سال پہلے قومی کرکٹر آصف علی کی کینسر کی شکار بیٹی کا ذکر کرتے ہوئے پریس کانفرنس میں آبدیدہ ہوگئے تھے۔ یہ 2 واقعات ہیں جو پاکستان کرکٹ کے شائقین کے دلوں پر ہمیشہ نقش رہیں گے۔

Facebook Comments