جمعہ 03 مئی 2024

خوبصورتی کا معیارگورا رنگ نہیں

خوبصورتی کا معیارگورا رنگ نہیں

تحریر: آصفہ ادریس

بیٹا جوکررہی ہو وہ ختم کرکے آنٹی کا فیشل شروع کرو پھرمیں آکردیکھتی ہوں،پارلرکا دروازہ کھول کراندرداخل ہوتے ہی جملہ کانوں میں پڑا۔باہرکی تیز روشنی سے پارلرکے ماحول سے آنکھیں ابھی مانوس ہورہی تھیں کہ ایک پرجوش سلام اورکیسی ہیں آپ سنائی دیا۔ذہن چند سکینڈزمیں کئی سال پیچھے گیا اورفورا یاد آیا کہ یہ مانوس چہرہ عائشہ کا تھا لیکن کئی سال پہلے کی عائشہ سے بالکل مختلف۔ محلے کے  ایک چھوٹے سے پارلرمیں کئی سال پہلے سانولی سے کچھ گہری رنگت، دبلی پتلی خوش اخلاقی سے ہرایک کوڈیل کرتی عائشہ کی جگہ پرسکون اورمطمئن چہرے اوربہترصحت والی اپنے پارلرکی مالک عائشہ سامنے تھی۔خوش اخلاقی لیکن وہی پرانی والی ہی تھی۔

‘بچپن سے ہی میری  خواہش تھی کہ میں اپنے لئے،اپنے خاندان کے لئے کچھ کروں اورمیرے والدین کومجھ پرفخر ہو۔مجھ سمیت گیارہ بھائی بہن تھے۔والد ایک کمانے والے اوربڑا خاندان۔۔۔ان حالات کودیکھ اورسمجھ کرچھوٹی عمرمیں ہی گھرکوسپورٹ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا’،عائشہ نے بتایا۔

کام کے حوالے سے عائشہ نے بتایا کہ میری لگن اورعزم دیکھ کرمیری بڑی بہن نے میری رہنمائی کی،حوصلہ دیا اورمجھ مہندی لگانا سیکھنے کا مشورہ دیا۔تیرہ سال کی عمرمیں مہندی کا کورس کیا۔مہندی لگا کرپیسے جمع کئے اورقریبی  پارلرسے بیوٹیشن کا کورس کیا اورایک چھوٹے سے پارلرمیں نوکری کرلی۔نوکری کی بھائیوں نے مخالفت کی۔ان کی دلیل تھی کہ نوکری خاص کرپارلرمیں کام کرنے والی لڑکیوں کواچھا نہیں سمجھا جاتا اورشک کی نظرسے دیکھا جاتا ہے۔اس موقع پرمیری امی اوربڑی بہن نے بہت سپورٹ کیا اوران کی سپورٹ سے ہی میں کام کرسکی۔

حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی دوسری فیلڈ کی طرح اس شعبے میں بھی اچھے لوگ بھی ہیں اوربرے بھی۔یہ آپ پرمنحصرہے کہ آپ اپنےآپ کوکیسے لے کرچلتےہیں

‘جوسلسلہ مہندی سیکھنے سے شروع ہوا تھا وہ آگے بڑھانے کے لئے پیسوں کی ضرورت تھی توجناب پارلرمیں نوکری کے ساتھ گھروں میں جاکرسروسزدینا شروع کیں۔پیسے جمع کئے اوراس دورکے ایک بڑے پارلرسے بیوٹیشن کا کورس کیا۔آج سےدس پندرہ سال پہلے بہت مہنگا کورس کیا تھا پانچ سوروپے کی فیس دے کراوردوہزارکا سامان آیا تھا،’عائشہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

عائشہ کی والدہ شمیمہ خاتون اپنی بیٹی پرفخر کرتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ عائشہ نے میرے اعتماد اوراعتبارکوکبھی ٹھیس نہیں پہنچائی۔ہمیشہ ہمیں عزت دی اوربڑی جدوجہد کرکے اپنی منزل پرپہنچی۔کچھ لوگ اپنی بیٹیوں کوبیٹوں سے کم ترسمجتے ہیں،میرے لئے تومیری بیٹی ہی دس بیٹوں سے بڑھ کرہےجس نے گھرکوبھی سپورٹ کیا اوراپنی زندگی بھی بنائی۔

عائشہ کی پرائیوٹ پڑھائی بھی چلتی رہی اورکام بھی۔ وقت آگے بڑھا اور اس دوران جس پارلرمیں عائشہ کام کرتی تھیں اس کے مالک کے ساتھ کام کرنے والے لڑکے کووہ پسند آگئیں۔معاملہ دوطرفہ ہوا اورشادی تک بات پہنچی تویہ شادی نہیں ہوسکتی والا فلمی منظرحقیقی بن گیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ عائشہ نے سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا میرا لوگوں کے خوبصورتی کے پیمانوں کے مطابق خوبصورت نہ ہونا،گوری رنگت نہ ہونا اوربنگالی بیک گراؤنڈ۔۔۔

نادرجواب میرے شوہرہیں ان کے گھروالے خصوصاًان کی والدہ کسی صورت اس رشتے کے لئے راضی نہیں تھیں۔ان کومیری ہرچیزپراعتراض تھا۔مسترد کئے جانے کااحساس بہت تکلیف دہ تھا۔اس سےپہلےمجھے پتا نہیں تھا کہ خوبصورت ہونا بھی زندگی گزارنے کے لئے اتنا ضروری ہے۔اوراتنا معنی رکھتا ہے۔نتیجہ شدید ڈپریشن کی صورت  میں نکلا۔

میرے اپنے گھرمیں بھی حالات سازگارنہ تھے۔میرے بھائیوں کے کے لئے بھی یہ شادی قابل قبول نہ تھی۔ بھائیوں نے میرا پارلرجانا اورگھرسے نکلنا بند کردیا۔غصے میں دھمکیاں بھی دیں اورموبائل بھی چھین لیا۔والدین کا کہنا تھا نادرکی والدہ آئیں گی تویہ شادی ہوگی۔غرض ایک سال کی جدوجہد کے بعدہماری شادی ہوگئی۔ عائشہ نے بات کوجاری رکھتے ہوئے کہا کہ شادی کے بعد بھی زندگی آسان نہ تھی نہ مشکلات کم ہوئیں۔ شادی میں شرکت نہ کرنے والی نادرکی والدہ بدستورناراض تھیں۔۔نادربیروزگارہوگئے تھے اور مجھے بھی نوکری سے جواب مل گیا۔بڑا سخت اورمشکل دورتھا۔بیٹی کی پیدائش ہوئی ساس تب بھی خفا رہیں لیکن جب بیٹا ہوا تومجھے اورمیرے شوہرکوبلاکرکہا کہ میں نے تم لوگوں کومعاف کیا۔

عائشہ کے شوہرنادرنے ہم سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میرے نزدیک شروع ہی سے گورا رنگ یا خوبصورت ہونا معنی نہیں رکھتا تھا۔عائشہ کومیں باوقار انداز میں محنت سے کام کرتے دیکھتا تھا اس بات نے ہی میرا دل جیت لیا۔عائشہ نہ صرف میری بیوی ہیں بلکہ میری سب سے قریبی اوربہت اچھی دوست بھی ہیں۔ہرمشکل گھڑی میں عائشہ میرے ساتھ چٹان کی طرح کھڑی ہوتی ہیں۔ کراچی میں اپنی بیٹی کے نام پرکھولے گئے پارلرمیں عائشہ کے پاس تین سے چارلڑکیاں مستقل بنیادوں پرکام کرتی ہیں۔عید،بقرعید اوردیگرموقعوں پرمزید لڑکیاں بھی عارضی طورپرکام کے لئے آتی ہیں۔

اپنا پارلرکھولنے سے پہلے ہوئے تلخ تجربے کے بارے میں عائشہ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے کام کرکرکے دولاکھ  روپے جمع کئے تھے۔بہت قریبی جاننے والے نے کاروبارکوبڑھانے کا کہہ کرہم سے پانچ لاکھ روپے لئے اورغائب ہوگئے۔دولاکھ ہمارے اورتین لاکھ کچھ دوسرے لوگوں کے۔بس نہ پوچھیں کیسا وقت گزارا اورکس طرح لوگوں کا پیسہ واپس کیا۔ بہت ہی کٹھن وقت تھا لیکن حوصلے سے سامنا کیا۔پارلرمیں نوکری کی اورکمیٹیاں ڈالیں۔ اللہ نے کرم کیا اورڈھائی تین سال میں قرضہ اترگیا۔ اس کے بعد ایک ایک قدم کرکے کے اپنا پارلرکیا۔

ہنستی مسکراتی چلبلی سی فریدہ بھی چارسال سے عائشہ کے ساتھ ہیں۔فریدہ بھی عائشہ کواپنی بڑی بہن مانتی ہیں ۔فریدہ کے بقول عائشہ باجی بڑی بہنوں کی طرح  ہیں۔غلطی ہونے پرڈانٹ ڈپٹ بھی ہوتی ہے لیکن خیال بھی بہت رکھتی ہیں

Facebook Comments