ھفتہ 04 مئی 2024

“دوسروں پر دشنام طرازی کی بجائے عمران خان کو اپنی بھیڑیں خود سنبھالنی چاہیے “

بیرسٹر امجد ملک

جتنی عالمی تنہائی کا پاکستان اب شکار ہے، اتنا تنہا پاکستان عالم اسلام اور عالمی دنیا میں کبھی نہ تھا۔ کشمیر ہو یا افغانستان؟ بریگزٹ کے ذریعے یورپ سے برطانیہ کی علیحدگی ہو یا امریکہ کے صدارتی انتخاب یا ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں پاکستان کا اٹکے رہنا ؟موجودہ حکمران بالکل غیر مطلق ہوچکے ہیں۔۔۔ اور تو اور سری لنکن حکومت نے پاکستانی وزیراعظم کا اپنی پارلیمنٹ سے خطاب کا بلاوا دیکر منسوخ کیا ہے۔۔۔بھلا اس سے بھی نیچے کچھ ہوسکتا ہے؟؟؟ ایسے میں سینیٹر مشاہد اللہ خان کے دنیا سے چلے جانے کا سن کر دل اداس ہے، انکی وفات سے مسلم لیگ ن سینٹ کے اندر ایک توانا آواز سے محروم تو ہوئی ہے لیکن پاکستان ایک ایسے سپوت سے محروم ہو گیا ہے جو جمہوریت پسند ،بہادر اور حق کا کلمہ بلند کرنے والا تھا۔۔۔ایوان بالا اُن کے بغیر اب سونا سونا لگے گا۔ ۔۔دعا ہے ہے اللہ تعالی سینیٹر مشاہد اللہ خان کی مغفرت کرتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام اور سوگواران کو صبر جمیل عطا فرمائے( آمین) انکے بیٹے کے سامنے اپنے والد کی صورت میں ایک حقیقی پہاڑ ہے جسکو انہوں نے سر کرنا ہے ۔سینیٹر شبلی فراز پہلے ہی اپنے والد صاحب کی شاعری سے مزاحمت کناں ہیں، امید ہے سینیٹر افنان اللہ خاں کو اپنے والد کے افکار کو سنبھالنے میں دقت نہیں ہوگی۔

 یوسف رضا گیلانی صاحب کو پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے مشترکہ امیدوار کے طور پر سینیٹ انتخابات میں کامیابی پر بھی مبارکباد ، یہ سینٹ الیکشن کا سب سے بڑا اَپ سیٹ ہے۔۔۔ یوسف رضا گیلانی ، سینٹ جو کہ قوم کی مجموعی دانش کا مظہر ہے اس میں ایک سمجھدار اضافہ ہوں گے۔۔۔ عمران خاں اب یہ بات سمجھیں کہ عوامی سیاست میں ووٹ اور ووٹر کی عزت ہی سب کچھ ہے۔۔۔ عوام کی حالت زار سے لگتا ہے کہ وہ خوش نہیں ہیں۔ ایوان میں عدم اعتماد کے بعد اب انہیں عوام سے رجوع کرکے انکا اعتماد حاصل کرنا چاہیے اور وہ کر بھی رہے ہیں۔۔

 نواز شریف اور پی ڈی ایم نے لانگ مارچ سے پہلے این اے75 ڈسکہ اور اب اسلام آباد سے یوسف رضا گیلانی کی جیت کی صورت میں علامتی کامیابی حاصل کی ہے۔۔۔ مارچ بہت دلچسپ مہینہ ہوگا۔۔۔ یوسف رضا گیلانی سمیت تمام نو منتخب سینیٹرز کو انکی جیت پر مبارکباد ۔۔۔امید ہے کہ وہ قوم کی اجتماعی دانش کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں گے۔۔۔ یہ جیت “ایک پیج ” والے بیانئے کے عمومی تاثر کو بدلنے میں مدد دے گی جس نے عوام کی حالت زار اجیرن کردی ہے۔۔۔ حکومت کی یہ شکست لانگ مارچ سے پہلے لانگ مارچ ہے۔۔۔ اب پی ڈی ایم کو کم محنت کرنا پڑے گی اور “ووٹ کو عزت دو” کی فتح کی طرف پیش قدمی ہوگی۔۔۔فیصل واؤڈا کے کیس میں غلط حلفیہ بیان کا استعفی دینے سے کوئی تعلق نہیں ۔۔۔ عدلیہ اور الیکشن کمیشن نے یہ طے کرناہے کہ اگر ایک جرم سرزد ہوا ہے تو اسکی سزا کیا بنتی ہے؟؟؟تمام تنخواہوں ، مراعات کی واپسی یا عوامی عہدے سے پابندی کم از کم سزا بنتی ہے،پولیس کو انصاف کی راہ میں رکاوٹ /دروغ بیانی پر الیکشن کمیشن مقدمہ درج کرنے کا حکم بھی دے سکتا ہے۔۔۔

 وزیراعظم قومی انتخابی اصلاحات کے لئے پارلیمان سے رجوع کریں تو بہتر ہے۔۔۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مزید الیکشن اصلاحات قومی ضرورت ہیں۔ایک ممبر پارلیمان کروڑوں روپے خرچ کر کے پارلیمان میں پہلے ہی دن سچ نہیں بتاتا کہ الیکشن اخراجات قانون کے مطابق خرچ نہیں ہوئے ہیں۔۔۔ سینٹ الیکشن میں دھن بارش کی طرح برستا ہے۔۔۔ یہ معمول بھی ہے اور عوامی آگاہی بھی لیکن اس بارے میں کیا کیا گیا ہے وہ قابل توجہ ہے۔۔۔ عمران خان اب اپنے ہی ممبران پارلیمنٹ پر ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگا رہے ہیں اور کچھ کرنے کی بجائے بس واویلا مچا رہے ہیں۔۔۔اگر فیصل واؤڈا اور فارن فنڈنگ کیس کو مثال بنایا ہوتا تو لوگ ڈرتے اور آج تبدیلی کے دعویدار عبرت کا نشان نہ بنتے۔۔۔

 سینٹ میں سنجرانی کے وقت تاریخی خریدو فروخت کرنے والے دھاندلی دھاندلی کا شور مچاتے اچھے نہیں لگتے۔۔ پہلے ضمنی اور اب سینٹ انتخابات” جیسی کرنی ویسی بھرنی” کا نتیجہ ہے ، غرور کا سر ہمیشہ نیچا ہوتا ہے۔۔۔حکومت وقت کو سنجرانی سنڈروم کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔۔ این اے75 ڈسکہ الیکشن اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ انکی الیکشن پر شفافیت اور آزادانہ ووٹنگ پر کمٹمنٹ دیکھنے کے لئے ایک مثالی کیس سٹڈی ہے اور کافی ہے۔۔۔ وزیراعظم عمران خان کے الزامات پر الیکشن کمیشن کو حکومت سے الجھنے سے اجتناب کرنا چاہیے اور صاف تر الیکشن کرواتے جانے چاہیے ۔۔۔

 الیکشن کمیشن کا اعلان شدہ این اے 75 ڈسکہ میں 18 مارچ 2021 کو ایماندارانہ، شفاف منصفانہ پرامن فضاءمیں قانونی طریقے سے ہونیوالا ضمنی انتخاب اور اسکا نتیجہ ہی صرف وزیراعظم عمران خان کی باتوں کا بر وقت جواب ہونا چاہیے۔۔۔ ڈسکہ الیکشن مقبولیت جانچنے کے لئے ایک انٹرنیشنل شو کیس اور کیس سٹڈی ہوگا۔ عمران خان صاحب کو اپنی بھیڑیں ایک گدڑیے کی طرح خود سنبھالنی چاہیے”ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا” کے مصداق محلے داروں کو اپنی ناکامیوں پر دشنام طرازی اور الزام تراشی مناسب اقدام نہیں۔ حزب اختلاف کے ممبران حفیظ شیخ کے حکومتی حمائت یافتہ ہونے کے باوجود ثابت قدم رہے، یہ قابل ستائش ہے وگرنہ ایک پیج والی حکومت وقت بہتر ذرائع اور دستیاب سہولیات کی حامل ہوتی ہے۔۔۔ اب بھی وقت ہے وزیراعظم باقی ماندہ قومی انتخابی اصلاحات کے لئے پارلیمان سے رجوع کریں۔

 اسحق ڈار کے خلاف نیب کی ٹیکس کی مد میں انکوائری بند کردی گئی ہے جو دیر آید درست آید ہے۔۔۔ سچ کو زیادہ دیر چھپایا نہیں جاسکتا۔ راوین سینئر اسحق ڈار کو پاکستان میں ڈالر100 روپےسے نیچے اور جی ڈی پی کی شرح 5.8% پر رکھنے پر سونے میں تولنا چاہیے تھا لیکن ترقی خوشحالی اور پاکستان کی اقتصادی ترقی سے خوفزدہ افراد نے ذاتی عناد میں نواز شریف سے بدلہ لینے کے لئے انکے سمدھی کو سخت رگڑا لگایا۔۔یہ شرمناک تو ہے ہی با عث فکر بھی ہے کہ اس انتقامی تجربے میں ملک کو کتنا نقصان ہوا ہے؟؟؟ انکے یہ دن انکو کون واپس کرے گا؟؟؟اسحق ڈار نواز شریف کے دست راست ہیں، پاکستان کا ایک درخشندہ ستارہ ہیں، ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اپنی ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرے میری سمجھ سے بالاتر ہے۔۔۔پاکستان کو اسحق ڈار کی ضرورت ہے تاکہ ڈالر ایک دفعہ پھر نیچے آئے اور جی ڈی پی واپس پانچ سے اوپر جائے ۔

سیاست میں کرپشن ایک سنگین مسلہ ہے اور تاریخی طور پر حل طلب ہے۔۔۔ اسکا حل ریاستی سمت کی درستگی اور مزید جمہوریت اور انصاف میں پنہاں ہے ۔۔۔ اگر انصاف دینے والے ادارے نظریہ ضرورت کی بجائے آئین قانون اور مروجہ انصاف کے اصولوں کا سہارا لیتے تو کوئی بھی آج بیک ڈور سے انصاف نہ مانگ رہا ہوتا بلکہ انصاف سیدھا آسان اور عوام کے دروازے پر موجود ہوتا۔۔۔ آئینی ادارے اگر آئین کی اصل تشریح اور عوام کیساتھ انصاف کریں جو انکا آئینی فریضہ ہے تو عوام اس حالت زار میں نہ ہوں۔۔۔ جمہوریت کی کمزوریوں کا علاج مزید جمہوریت میں ہے۔۔۔ ڈسکہ میں دوبارہ انتخاب کے حکم کے ذریعے در حقیقت نواز شریف نے ووٹ کو عزت دو کے نعرے کے ذریعے عمران خان کو اسی کی پچ پر کلین بولڈ کیا ہے۔

عوام نے ضمنی انتخاب میں اپنا عندیہ دے دیا۔۔۔ یہ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے،عوام میں اضطراب پایا جاتا ہے۔۔۔ نئے انتخابات پاکستان کے لئے ترقی کی نئی راہیں کھول سکتے ہیں۔۔۔ حکومت کی ڈسکہ میں کارروائی اور اس پر الیکشن کمیشن کا فیصلہ آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔۔۔ اب ووٹ کا بکسہ چوری کرنے والے جہت پاکر پورا عملہ ہی اغواء کرنے کو تیار ہیں۔۔۔ یہ ہوشیاری اب زیادہ دیر تک نہیں چلے گی کیونکہ ووٹ کی عزت اس بہادر قوم کا مقدر ہے اور انکے ووٹ کیساتھ انصاف انکا حق ہے۔۔۔ عوام اپنے ووٹ کے تقدس کی حفاظت کیلئے اٹھ کھڑی ہو گی تو انکے ووٹ کی لوٹ سیل کا سلسلہ رک جائے گا۔۔۔

این اے 75 ڈسکہ اصل میں جنرل الیکشن 2018ء کی بیماری کی تشخیص اور دوبارہ الیکشن اور نتیجہ اسکے علاج کی طرف پیش قدمی ہوگی۔۔۔یہ الیکشن پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری عمل مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔۔۔ وزیراعظم اپنے ہاؤس سے آرٹیکل 91 کے تحت اعتماد کا ووٹ مانگ رہے ہیں۔ ضمنی انتخابات میں عوام اپنا حق رائے دہی استعمال کرچکے ہیں۔۔۔ 18 مارچ کو عوام ایک دفعہ پھر ڈسکہ میں الیکشن کمیشن کے زیراہتمام ایک ایماندارانہ شفاف اور منصفانہ انتخاب کی کوشش ملاحظہ فرمائیں گے جہاں ڈسکہ کے عوام تین سو ساٹھ پولنگ سٹیشن پر ووٹ ڈالیں گے اور پورا ملک انہیں دیکھ رہا ہوگا۔ یہ پی ڈی ایم کی ابتدائی فتح ہے کہ مارچ سے پہلے مارچ کا ماحول بن گیا ہے، یہ مسلم لیگ اور پی ڈی ایم کی ایک گلاس توڑے بغیر بڑی کامیابی ہے۔۔۔

عمران خان کو چاہیے تقریروں کی بجائے کام اور نتائج پر توجہ دیں۔۔۔ انکو الیکشن اصلاحات سے کوئی نہیں روک رہا لیکن وہ پارلیمان کی بجائے سپریم کورٹ اور پی ٹی وی کے ذریعے اصلاحات کے خواہاں ہیں۔۔۔انکو مجاز فورم سے آئین اور قانون میں ترمیم کرنے کے لئے رجوع کرنا چاہیے اور ووٹ کی عزت کرنی چاہیے۔۔۔ این اے 75 ڈسکہ ایک تاریخی موقع فراہم کررہا ہے۔گھوڑا اور میدان حاضر ہے۔۔۔ چار حلقے کھولنے اور پینتیس پنکچرز کے مطالبات کے بعد 19 جنوری 2021 کا ضمنی انتخاب اور این اے 75 ڈسکہ کے بیس پولنگ سٹیشن عمران خان کیلئے ایک تاریخی چیلنج کا درجہ رکھتے ہیں۔۔۔ انکی حکومت کو ووٹ کی جانکاری کا شوق بھی ہے جسکے لئے صدارتی ریفرنس عدالت عظمی میں دائر بھی کیا ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود اس صدارتی ریفرنس کا ذکر خیر بھی سب کر رہے ہیں۔۔۔

گھوڑا اور میدان حاضر ہے، اگر حکومت میں دم ہے تو الیکشن کمیشن کی مدد کریں فرانزک آڈٹ کروائیں تاکہ بیس حلقوں میں ووٹ اور پولنگ ایجنٹس کیساتھ کیاہوا ؟؟ اسکا پتہ چلے، اس کے پیچھے چھپے محرکات ، سہولت کار اور ماسٹر مائنڈ کا پتہ چلا کر سزا دی جاسکی۔۔۔ این اے 75 پورے ریاستی ڈھانچے کو متاثر تو نہیں کرتا لیکن الیکشن کےنظام کو ٹھیک کرنے میں مدد ضرور کرسکتا ہے۔۔۔ ری پولنگ اور نیا انتخاب تو معروضی حل ہے، وہ “مٹی پاؤ” اور “ڈنگ ٹپاؤ” حل ہے جو ہومیو پیتھک علاج ضرور ہے نیو کلیائی سرجری نہیں۔۔۔ ہر دفعہ ہر سانحے پر مٹی ہی ڈالی گئی ہے تہہ تک نہیں پہنچا گیا۔۔۔ سیاست میں اخلاقی برتری اسی کی ہے جسے عوام ووٹ کے ذریعے پذیرائی دیں۔۔۔ اگر آپ ووٹ چوری پر طرح طرح کی دشنام ترازی اور الیکشن کمیشن کو برا بھلا کہنے کے بعد نیوکلیائی تبدیلیوں کے لئے اب بڑے فیصلے لینے کی طرف نہیں جاتے تو لوگ کہیں گے باتیں کروڑوں کی اور دکان پکوڑوں کی۔۔۔

پاکستان میں آزاد ،خودمختار اور کسی بھی دباؤ کےبغیرذمہ داری سے کرنٹ افیئر رپورٹ کرتامیڈیاجمہوریت کی اصل روح کی بحالی کےلئےنہائت اہم ہے۔۔۔ حکومت وقت چاہتی ہے کہ صحافی انکا سچ ہی سچ لکھیں،حزب اختلاف عوام اور سول سوسائٹی وہ سچ جاننا چاہتی ہے جس میں کوئی دراڑ نہ ہو، پائیدار ہو اور مکمل ہو۔۔۔ آزاد شفاف اور ایماندارانہ جانکاری ہی جمہوریت کی فتح ہوگی۔۔۔ قحط الرجال جیسے ماحول میں میں جسٹس قاضی فائز عیسی جیسے لوگوں کا ہمارے درمیان موجود ہونا اور اپنے حق اور سچ کے لئے جدوجہد کرنا اللہ کی رحمت کی نشاندہی ہے اور یہ بات ظاہر بھی کرتی ہے کہ ابھی سب کچھ ضائع نہیں ہوا۔۔۔ اللہ تعالی کی ذات باری تعالی مکمل انصاف کرنے والی ہے اور انہیں آرٹیکل 187 کی ضرورت بھی نہیں ہوتی ۔۔۔دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنی اپنی اصلاح کی توفیق عطا کریں ۔ آمین

Facebook Comments