ھفتہ 04 مئی 2024

میانمار کی فوجی بغاوت اورآنگ سانگ سوچی کے ساتھ مکافات عمل

اشتیا ق بیگ

یکم فروری کی صبح جب سورج کی کرنوں نے میانمار کی زمین پر روشنی بکھیر ی تو وہاں بسنے والے
لوگ اس دن کی تاریکی سے واقف نہیں تھے ،طاقت کے ایوانوں میں فیصلہ ہو چکا تھا کہ برسراقتدار جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی سربراہ آنگ سانگ سوچی کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے گا ۔پھر وہ وقت آیاجب میانمار کی فوجی قیادت نے اپنے مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنا کر آنگ سانگ سوچی سمیت دیگر پارٹی قیادت کو گرفتار کرلیا ۔

اقتدار پر قابض فوجی سربراہ جنرل من آنگ ہلینگ نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں نے ایک سال کے اندر ملک میں نئے الیکشن کروانے اور کامیاب ہونے والی جماعت کو اقتدار منتقل کرنے کا اعلان کیا اور ملک میں اتحاد و تنظیم کی ضرورت کے گھسے پٹے فوجی نعروں کے ساتھ اپنی تقریر ختم کی ۔پھر فوجی بغاوت کے خلاف عوام کا رد عمل سامنے آیاجس کے نتیجے میں اب تک درجنوں لوگ ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے ۔میانمار کی حالیہ فوجی بغاوت کو امریکہ کی جانب سے بھی سخت مزاحمت کا سامنا ہے ۔ امریکی صدر نے ایک ایگزیکٹو آرڈر میں فوجی بغاوت میں ملوث جرنیلوں پر ویزے کی پابندی عائد کردی اور اب یہ فوجی جنرلز امریکہ میں اپنے ایک ارب ڈالر سے زائد کے اثاثوں سے محروم ہوگئے ہیں۔

 اقتدار سے محروم آنگ سانگ سوچی کی تاریخ بھی بہت عجیب ہے ،وہ خود بھی ایک فوجی جنرل اونگ سان کی بیٹی ہیں جنہوں ماضی میں میانمار کو برطانوی تسلط سے آزاد کرانے کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا تھالیکن پھر وقت کا پہیہ پلٹا اور 1988 میں فوجی جرنیل کی بیٹی نے اپنی سیاسی جماعت ’نیشنل لیگ فارڈیمو کریسی ‘کی بنیاد رکھ کر اس وقت کی فوجی حکومت کے خلاف جدو جہد شرو ع کردی ۔1990 کے انتخابات میں سوچی کی پارٹی نے بھاری اکثریت تو حاصل کرلی مگر فوج نے انہیں اقتدار منتقل کرنے کے بجائے گھر میں نظر بند کردیااور اس دوران انہیں نوبل پرائز سے بھی نواز ا گیا۔پھر 2016میں سوچی کی پارٹی کامیاب ہوئی مگر فو ج کے ساتھ شراکت اقتدار کا معاہدہ بھی کرنا پڑا کیونکہ میانمار کا آئین کے مطابق فوج کو اقتدار میں 25فیصدحصہ ملتا ہے اور وزارت دفاع و داخلہ جیسی اہم وزارتیں بھی فوج کے لیے مختص ہیں ۔پھر ایسی افواہیں سامنے آنے لگیں کہ سوچی آئین تبدیل کر کے فوج کو اقتدار سے الگ کرنا چاہتی ہیں جو کہ اس بغاوت کی اہم وجہ ثابت ہوئی۔

 میانمار کے سیاسی حالات بھی شائد پاکستان سے زیادہ مختلف نہیں کیونکہ وہاں بھی فوج اور سول سیٹ اپ کے درمیان کشمکش کی ایک تاریخ ہے ۔میانمار میں بھی سویلین حکومت پر کرپشن اور انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کر کے اقتدار پر قبضے کیے جاتے رہے ہیں اس کی بڑی مثال حالیہ فوجی بغاوت ہے مگر میانمار کی فوج کو اندازہ نہیں تھا کہ اب دنیا بدل چکی ہے اور اب عالمی برداری کی طرف سے سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔پاکستان کی طرح میانمار کی معیشت بھی زبوں حالی کا شکار ہے اور پھر ایسے میں عالمی اقتصادی پابندیا ں ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کریں گی جس سے وہاں کی عوام متاثر ہو گی ۔

 آنگ سانگ سوچی کو مسلم دنیا میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے میانمار کی سرزمین روہنگیامسلمانوں پر تنگ کی اوردنیا نے مسلمانوں پر ظلم کے دلخراش مناظر دیکھے ۔میانمار میں فوجی بربریت کے نتیجے میں 8لاکھ مسلمانوں کو انتہائی مشکل حالات میں بنگلہ دیش ہجرت کرنا پڑی ۔اس سے سوچی کی عالمی شہرت متاثر ہوئی اور ان سے نوبل پرائز واپس لینے کا مطالبہ زور پکڑا۔

جس دور میں آنگ سانگ سوچی اپنے ملک میں سویلین بالادستی کی جنگ لڑی رہی تھیں تب میں بھی ان کی سیاسی جدو جہد کا حامی تھا اور اس حوالے سے کئی کالمز بھی تحریر کیے لیکن پھر سوچی کے ہی دور اقتدار میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ظلم کی داستانوں نے میرے دل میں آنگ سانگ سوچی کی قدر ومنزلت ختم کردیا ۔آج آنگ سانگ سوچی مکافات عمل کے دور سے گزر رہی ہیں اور میرا کامل یقین ہے کہ سوچی کی اقتدار سے محرومی روہنگیامسلمانوں کی آہ کا نتیجہ ہے ۔

Facebook Comments