اتوار 19 مئی 2024

عمرو بن عبدود نے غرور تکبر سے اپنی تلوار کو لہراتے ہوئے کہا۔۔۔۔؟؟

ایک شہسوار عمروبن عبدود نے اپنے گھوڑے کی پشت سے چھلانگ لگائی۔ غرور تکبر کے لہجہ میں اپنی ت۔لوار کو لہراتے ہوئے پکار نے لگا: ہے کوئی مردمیدان جو میرے مقابلے میں آئے ؟ کسی صحابہ ؓنے اس کی للکار کا جواب نہیں دیا۔ سب خاموشی طاری تھی ۔ بھلا عمروبن عبدود جیسے شہسوار کے مقابلے کےلیے کون میدان میں آنے کی جرات کرسکتا تھا۔

وہ تو اپنے ایک وار سے دسیوں کاکام تمام کرنے والا تھا۔ کوئی نہ بولا۔ ایک نوجوان کی آواز نے اس خاموشی کو توڑا جو اپنے عنفوان شباب میں پہنچا ہواتھا اور ایمان اس کی رگ و ریشہ میں سرایت کر چکا تھا اور جس کا دل محبت نبوی ؐ سے لبزیز تھا ۔ وہ جوان حضرت علی ابن ابی طالبؓ تھے۔

انہوں نے عمرو بن عبدود کی للکار کو جواب دیا۔ حضرت علی ؓرسول کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: حضور ؐ ! میں اس کا مقابلہ کروں گا۔ نبی کریم ؐ نے ازراہ شفقت ان کی طرف دیکھا اور فرمایا “بیٹھ جاؤ، جانتے ہو وہ عمرو ہے ۔ “آپ بیٹھ گئے ، لیکن عمرو نے دوبارہ مقابلے کا چیلنج دیتے ہوئے کہا: کوئی مرد میدان ہے جو میرے سامنے آئے ؟ کہاں ہے تمہاری جنت ؟ جس کے متعلق تمہارا گمان ہے کہ جو تم میں سے ق ت ل ہوتاہے وہ اس جنت میں جاتا ہے۔ کیا تم میرے مقابلے میں کوئی آدمی نہیں بھیجو گے ؟ کیا تم جنت کے خواہش مند نہیں ہو؟ حضرت علی ؓدوبارہ اٹھے اور آنحضرتؐ سے عرض کرنے لگے : حضور! میں اس کے مقابلے کےلیے نکلتا ہوں۔

نبی کریمؐ نے پھر فرمایا: بیٹھ جاؤ جانتے ہووہ عمرو ہے۔ حضرت علیؓ بیٹھ گئے، لیکن عمرو کا استہزاء بڑھتا گیا اور وہ اکیلا معرکہ کا رزارمیں اترنے لگا اور اپنی تیز ت۔لوار کے کرد ندنا لگا اور رجزیہ اشعار پڑھنے لگا۔ جب عمرو بن عبدود نے دلو ں کوہلاد ینے والے کلمات کہے تو وہ حضرت علیؓ پر بجلی بن کر گرے۔ شیرخدا کا پیمانہ صبرلبریز ہوگیا۔ دوڑتے ہوئے بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر عرض کی: حضور! میں اس کے مقابلہ میں نکلتا ہوں۔ نبی کریم ؐ نے یہی فرمایا بیٹھ جاؤ، جانتے ہو وہ عمرو ہے ۔

حضرت علی ؓنے خدا پر کامل توکل کرتے ہوئے کہا: خواہ عمرو ہی ہو! پھر قدم جماتے ہوئے اٹھے اور گھوڑے پرسوار ہو کر اس کے قریب آکر کچھ اشعار پڑھے جن کا ترجمہ یہ ہے: “جلدی نہ کرو تیری پکار کا جواب دینے والا تیرے سامنے آگیاہے وہ بے بس نہیں ہے۔ پوری نیت اور بصیرت کے ساتھ آیا ہے۔ سچائی ہی ہر کامیاب ہونے والے کو نجات دیتی ہے۔ وہ آنے والا نیزوں سے ایسی ضرب لگائے گا کہ سب یاد رکھیں گے”۔ پھر حضرت علی ابن ابی طالب ؓعمرو کے گھوڑے ک ےپاس پہنچے اور عمرو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔ عمرو نےحضرت علیؓ کی طرف دیکھا اور پوچھا”اے جوان! تو کون ہے؟ ” آپ نے فرمایا: میں علی بن ابی طالب ؓہوں۔ عمرو نے کہا اے بھتیجے !تمہارے بڑے کہاں ہیں جو عمر میں تجھ سے بڑے ہوں ؟

میں تمہارا خ ون بہانا پسند نہیں کرتا۔ حضرت علیؓ نے جواب دیا: اے عمرو! تونے خدا سے یہ عہد کیاتھا کہ اگر کوئی قریشی آدمی تجھے دو اچھی باتوں میں کسی ایک کی دعوت دے گا تو تو اس کو قبول کرے گا۔ عمرو نے سرہلاتے ہوئے کہا کہ ہاں میں نے کہا تھا ۔ حضرت علی نے فرمایا: لہذا میں تجھے خدا اور اس کے رسول ؐ کی طرف اوراسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔ عمرو نے ہنستے ہوئے کہا مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔ حضرت علی ؓنےکہا کہ پھر میں تجھے ق ت ال کی دعوت دیتا ہوں۔ عمر و نے کہا اے بھتیجے ! نہیں ! لات کی قسم ! میں تجھے ق ت ل کرنا پسند نہیں کرتا۔

حضرت علی ؓنے کہا، لیکن بخدا! میں تجھے ق ت ل کرنا پسند کرتا ہوں۔ عمرو کو غصہ آگیا۔ اس کی رگیں غصہ سے پھول گئیں اوردانت سے پیسنے لگا۔ اس نے نیام سے اپنی ت۔لوار نکالی اور وہ آگ کے شعلہ کی طرح اس کے ہاتھ میں آگئی اور وہ اس قریشی نوجوان پراپنا غیظ وغضب ڈھانے کےلیے آگے بڑھا۔ حضرت علی ؓنے اپنی ڈھال سے اس کے وار کا بچاؤ کیا۔ عمرو نے اپنی ت۔لوار کے وار سے آپ کی ڈھال کوتوڑ دیا۔ اور ت۔لوار اس میں پھنس گئی۔ اس وار سے حضرت علی ؓکا سر زخمی ہوگیا۔ حضرت علی ؓنے فوراً اس کے کندھے پر تل۔وار ماری جس سے عمرو خ ون میں لت پت ہو کر گرپڑا ۔ ہر طرف سے تکبیر کی آ واز یں بلند ہوگئیں۔ ساتھ یہ بھی شوار اٹھا کہ “لافتی ٰ الاعلی، لافتیٰ الاعلی ” یعنی علی ؓہی جوان مرد ہیں، پھر حضرت علی ؓظفریاب ہو کر اپنے لشکر کی جانب واپس لوٹے۔

Facebook Comments