اتوار 19 مئی 2024

منشیات کے باعث اموات: اسکاٹ لینڈ جرمنی سے کیا سیکھ سکتا ہے؟

اسکاٹ لینڈ کو منشیات کے باعث ہونے والی انسانی اموات کے لحاظ سے یورپ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے تاہم اس ملک میں انسداد منشیات کے لیے اب تک کیے گئے اقدامات بہت کم اور مایوس کن ثابت ہوئے ہیں۔اسکاٹ لینڈ کے شہری علاقوں میں 1996ء میں منشیات کا ناجائز استعمال خوفناک حد تک بڑھ چکا تھا۔ اب یہ محض افسانوی بات نہیں رہی اور منشیات کے ناجائز استعمال سے متعلق اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اسکاٹش قوم ایک ختم نا ہونے والی جنگ لڑ رہی ہے۔

گزشتہ سال منشیات سے متعلق معاملات کی وجہ سے 12 سو سے زائد اسکاٹش شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ دراصل نئے اعداد و شمار کا ریکارڈ رکھے جانے کے بعد سے اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ یہ تعداد برطانیہ میں منشیات کے سبب ہونے والی کل انسانی اموات سے بھی ساڑھے تین گنا زیادہ بنتی ہے۔ اسکاٹ لینڈ وہ ملک بن گیا ہے، جہاں منشیات کے باعث ہونے والی اموات دیگر یورپی ممالک میں ایسی اموات کی اوسط تعداد سے 15 گنا زیادہ ہیں۔ جرمنی میں منشیات کی وجہ سے ہونے والی اموات کی شرح نسبتاً کم ہے تاہم نشہ آور مادوں کے استعمال کا رجحان اسکاٹ لینڈ جیسا ہی ہے۔ ان دونوں ممالک میں اکثر نشہ آور مادے کوکین اور دیگر طاقت ور منشیات سے ملا کر تیار کیے جاتے ہیں۔ اس نشہ آور مادے کے عادی افراد تقریباﹰ ایک ہی عمر کے ہوتے ہیں۔ ایسے شہری پہلی بار 80 اور 90 کی دہائی میں ان منشیات کی لت کا شکار ہوئے تھے۔ تاہم وہ شہری علاقے یا مقامات جہاں ایسی منشیات زیادہ تر استعمال کی جاتی ہیں، ان کی نوعیت میں اب بنیادی فرق آ چکا ہے۔

جرمنی سے کیا سیکھا جا سکتا ہے؟

جرمنی کی تمام 16 وفاقی ریاستوں میں سے ہر ریاست انفرادی طور پر اپنی پالیسی خود وضع کرتی ہے اور یہ پالیسی سازی وفاقی قانون سازوں کے اثر سے آزاد ہو کر کی جاتی ہے۔ اس کے برعکس لندن حکومت کے اہلکار عوامی صحت سے متعلق اس طرح کی صورت حال کے سبب کسی ایمرجنسی کا اعلان کرنے سے مکمل انکار کر دیتے ہیں اور لندن نے اسکاٹ لینڈ میں منشیات کے ناجائز استعمال کی صورت حال کو یکسر نظر انداز کر دیا۔گزشتہ برس اکتوبر میں قانون سازی سے متعلق یہ تنا زعہ اور بھی شدت اختیار کر گیا جب گلاسیکیائی ڈرگ ایکٹیوسٹ پیٹر کرائیکانٹ عالمی شہ سرخیوں میں نظر آنے لگا۔ اس پر برطانیہ کے 50 سال پرانے منشیات ایکٹ کے تحت الزام عائد کیا گیا۔ اس کا جرم یہ تھا کہ وہ ایک ‘موبائل ڈرگ کنزمپشن روم‘ یا منشیات کے استعمال کے لیے ایک چلتا پھرتا اڈہ چلا رہا تھا۔ اس بارے میں انگلینڈ کے ایک ڈرگ ایکسپرٹ پروفیسر پیٹر لائڈ کا کہنا ہے، ”میں بہت شدت سے یہ محسوس کرتا ہوں کہ برطانیہ کے پاس متعدد مواقع تھے، جرمنی جیسے ممالک کی پیروی کرنے کے اور شواہد پر مبنی طریقہ کار اپنا کر منشیات کا انسداد کرنے کے، جنہیں استعمال کر کے یقینی طور پر بہت سی جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔‘‘

 جرمنی کے ‘ڈرگ کنزمپشن روم‘ ڈی سی آر

جرمن شہر فرینکفرٹ کے منشیات سے متعلقہ امور کے ماہر پروفیسر ہائینو اشٹؤور ‘سیف کنزمپشن موومنٹ‘ یعنی ‘محفوظ استعمال کی تحریک‘ میں شروع سے ہی پیش پیش رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی جگہیں جہاں صارفین قانونی طور پر طبی نگرانی میں منشیات استعمال کر سکتے ہوں، ایسے ڈی سی آر کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ”ہم نے بالکل شروع میں یہ غیر قانونی کام 80 کی دہائی میں شہر بریمن سے کیا پھر سن 2000 میں جرمنی کے افیون کے استعمال سے متعلق پرانے قانون کے تحت ہم جو کچھ غیر قانونی طور پر کر رہے تھے، اسے قانونی شکل دے دی گئی۔‘‘بالی وُڈ اور ڈرگ مافیا: دیپیکا پڈوکون سمیت تین اداکاراؤں سے تفتیش

شمالی جرمنی میں اب 25 ڈی سی آر موجود ہیں۔ پروفیسر ہائینو اشٹؤور کا کہنا ہے کہ اس جغرافیائی تقسیم سے محفوظ استعمال سے متعلف لائحہ عمل کی افادیت کا پتا چلتا ہے۔ جرمنی کے شمال میں ڈی سی آر سے لیس شہروں میں منشیات کے باعث اموات کی شرح بہت کم ہے۔ پروفیسر اشٹؤور کے بقول، ”فرینکفرٹ میں منشیات کے استعمال کے چار مقامات موجود ہیں جبکہ اس شہر میں افیون استعمال کرنے والے شہریوں کی تعداد 10 ہزار ہے۔ یہاں ہر سال منشیات کے سبب صرف 22 اموات ہوتی ہیں۔ میونخ میں افیون کے 6 ہزار صارفین ہیں اور وہاں ہر سال اس وجہ سے 160 سے زائد اموات ہوتی ہیں اور ان کے ہاں کوئی ڈی سی آر نہیں ہے۔ اس سے فرینکفرٹ اور دیگر شہروں میں ڈی سی آر یا منشیات کے استعمال کے لیے مخصوص مقامات کی اہمیت کا اچھی طرح اندازہ ہو جاتا ہے۔‘‘

نئی حکمت عملی کی ضرورت

ہر کوئی اس کا قائل نہیں۔ ‘فیس اینڈ وائس آف ریکوری گروپ‘ منشیات کی عادت میں مبتلا اسکاٹش باشندوں اور ان کے گھرانوں کی مدد کرتا ہے۔ اس گروپ کی چیف ایگزیکٹیو اینامیری وارڈ کہتی ہیں، ”جی ہاں، ایسے شواہد موجود ہیں کہ ڈی سی آر منشیات کے محفوظ استعمال میں نشے کے عادی افراد کے لیے مددگار ثابت ہوتے ہیں، اگر اس کا استعمال صحیح طریقے سے صحت کی بحالی کی سہولیات کے ساتھ کیا جائے تو۔ اس پر انہیں توجہ مرکوز کرنا چاہیے۔ اسکاٹ لینڈ میں منشیات کے عادی افراد کے بد ترین کیسز کے لیے صحت کی بحالی کے محض 22 مراکز ہیں۔‘‘ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نظام صحت کی بحالی کے کام پر توجہ دینا چھوڑا جا چکا ہے اور اس کے بجائے اس میں تمام تر توجہ لوگوں کو زندہ رکھنے پر مرکوز رہتی ہے۔‘‘

ماہرین کے مطابق جب تک کوئی نیا اور جرأت مندانہ لائحہ عمل تیار نہیں کیا جاتا، اسکاٹ لینڈ میں منشیات کے بھیانک بحران میں کمی کے کوئی واضح امکانات نظر نہیں آئیں گے۔

Facebook Comments