ھفتہ 18 مئی 2024

دہلی:ٹرمپ کے دورے کے دوران شہریت قانون پر احتجاج،7 ہلاک، مذہبی بنیاد پر تشدد کے واقعات

دہلی:ٹرمپ کے دورے کے دوران شہریت قانون پر احتجاج،7 ہلاک، مذہبی بنیاد پر تشدد کے واقعات

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج کے دوران تصادم میں مرنے والوں کی تعداد 7 ہوگئی جبکہ تقریباً 150 لوگ زخمی ہیں۔

غیرملکی خبررساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق ایک پولیس افسر انیل متل کے مطابق ‘دہلی پولیس کے ایک ہیڈکانسٹیبل سمیت 7 افراد ہلاک’ ہوئے جبکہ تقریباً 150 زخمی ہیں۔

واضح رہے کہ دہلی کے شمال مشرقی حصے میں نئے متنازع شہریت قانون کے خلاف ہزاروں افراد کے احتجاج میں یہ تصادم شروع ہوا۔

یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ امریکی صدر اپنے پہلے دورے پر 24 فروری کو بھارت پہنچے تھے، جہاں ان کی آمد کے ساتھ ہی ان احتجاج میں شدت آگئی تھی۔

سرفراز نام بتانے پر تشدد کیا گیا، متاثرہ شخص

ادھر اس تمام صورتحال پر برطانوی خبررساں ادارے بی بی سی کی اردو سروس نے رپورٹ کیا کہ شمال مشرقی دہلی کے 10 علاقوں میں دفعہ 144 نافذ کردی گئی۔

انہوں نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ تشدد کا بناشہ بننے والے شخص سرفراز نے بتایا کہ وہ پیر کی رات کو والد کے ہمراہ اپنے چچا کے جنازے سے واپس آرہے تھے کہ کراسنگ پل کے مقام پر ہجوم نے انہیں گھیر لیا۔

جھڑپوں کے دوران گاڑی نذرآتش کردی گئی—فوٹو: رائٹرز
جھڑپوں کے دوران گاڑی نذرآتش کردی گئی—فوٹو: رائٹرز

سرفراز نے بتایا کہ وہ لوگ اس مقام سے گزرنے والوں کی شناخت کی تصدیق کر رہے تھے اور جب انہوں نے مجھ سے میرا نام پوچھا تو میں نے پہلے اپنا اصلی نام نہ بتانے کی کوشش کی۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تاہم انہوں نے مجھ سے پتلون اتارنے کو کہا، جس پر میں نے اپنا نام ‘سرفراز’ بتادیا اور پھر انہوں نے مجھ پر لاٹھیوں سے تشدد کیا اور آگ میں پھینک دیا۔

یہی نہیں بلکہ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ مشرقی دہلی کے مختلف علاقوں میں بھی زخمیوں کو ہسپتال لے جانے والی ایمبولنسز پر بھی حملہ کیا گیا جبکہ ایک علاقے برجپوری میں نوجوان، بزرگ اور خواتین کے ہاتھوں سلاخیں اور ڈنڈے نظر آئے۔

مذہب کی تصدیق کیلئے پتلون اتارنے کی دھمکی دی گئی، فوٹوگرافر

ادھر بھارتی خبررساں ادارے ٹائمز آف انڈیا نے اپنے فوٹوگرافر کے ساتھ ہندو مسلم کے فرق کی بنیاد پر پیش آنے واقعے کو بھی بیان کیا۔

رپورٹ میں فوٹوگرافر نے بتایا کہ کس طرح شمال مشرقی دہلی میں چیزیں ہاتھ سے نکل رہی ہیں اور مذہب کی بنیاد پر تشدد کے لیے اکسایا جارہا ہے۔

اپنے ساتھ پیش آئے واقعے کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ میں موج پور میٹرو اسٹیشن پہنچا تھا کہ وہاں ایک ‘ہندو سینا کے رکن’ اچانک میرے پاس آئے اور میری پیشانی پر تلک لگانے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ اس سے میرا کام ‘آسان’ ہوجائے گا۔

حامیوں و مخالفین آمنے سامنے نظر آئے—فوٹو:رائٹز
حامیوں و مخالفین آمنے سامنے نظر آئے—فوٹو:رائٹز

انہوں نے مجھے کیمروں کے ساتھ دیکھ لیا تھا جو میرے فوٹوگرافر ہونے کی شناخت کر رہے تھے، تاہم وہ اس بات پر اصرار کر رہے تھے کہ بھائی ‘آپ بھی ہندو ہیں (اور) اس میں کیا نقصان ہے’۔

اپنی آپ بیتی بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ تقریباً 15 منٹ بعد علاقے میں دو گروہوں کے درمیان پتھراؤ شروع ہوگیا اور میں نے آسمان میں دھویں کے سیاہ بادل دیکھے پھر جب میں اس آگ لگنے والی عمارت کی طرف گیا تو شو مندر کے قریب کچھ افراد نے مجھے روک دیا، جب میں نے ان سے کہا کہ میں کچھ تصاویر لینے جارہا ہوں تو ان میں سے ایک نے کہا کہ ‘بھائی آپ بھی ہندو ہو؟ کیوں جارہے ہو؟ آج ہندو جاگ گیا ہے۔

تاہم انہوں نے بتایا کہ کچھ دیر بعد میں رکاوٹوں سے ہوتا ہوا اس مقام پر پہنچا اور جیسے ہی تصاویر لینا شروع کیں، کچھ لوگ لاٹھی اور سلاخیں لے کر میرے گرد جمع ہوگئے، انہوں نے میرا کیمرا چھینے کی کوشش کی لیکن میری ساتھی رپورٹر نے میرے سامنے آکر انہیں روکا جس پر وہ وہاں سے چلے گئے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کچھ دیر بعد مجھے یہ اندازہ ہوا کہ وہ لوگ میرا پیچھا کر رہے ہیں، اسی دوران ایک نوجوان میرے پاس پہنچا اور پوچھا کہ ‘بھائی تو زیادہ اچھل رہا ہے، تو ہندو ہے یا مسلمان؟’ اور انہوں نے دھمکی دی کہ وہ میرے مذہب کی تصدیق کے لیے میری پتلون اتاردیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اسکے بعد میں نے اپنے ہاتھوں کو باندھا اور کہا کہ میں ایک معمولی سا فوٹوگرافر ہوں، جس کے بعد انہوں نے مجھے مزید دھمکیاں دیں لیکن پھر جانے دیا۔

فوٹوگرافر نے کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ بعد ازاں میں نے ایک رکشہ لے کر دفتر واپسی کی کوشش کی لیکن تھوڑی ہی دیر میں مجھے احساس ہوا کہ رکشے پر درج نام ہجوم کے سامنے ہمارے لیے مسئلہ ڈال سکتا ہے، اتنے میں 4 افراد نے ہمیں روکا اور کالر سے پکڑ کر رکشے سے باہر کھینچا، میں ان سے درخواست کرتا رہا کہ مجھے جانے دیں میں پریس کا رکن ہوں جبکہ رکشہ ڈرائیور بے قصور ہے۔

علاوہ ازیں انہوں نے لکھا کہ بعد ازاں ڈرائیور نے مجھے جب چھوڑا تو وہ کانپ رہا تھا۔

دہلی کی صورتحال

واضح رہے کہ بھارت کی ہندوقوم پرست حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے لاگو کیے گئے متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج تقریباً 2 ماہ سے جاری ہے، تاہم اس میں شدت گزشتہ دنوں اس وقت سامنے آئی جب امریکی صدر بھارت کے دورے پر پہنچے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دورہ بھارت کے دوران نئی دہلی آمد سے قبل ہی ہزاروں کی تعداد میں افراد متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج کے لیے جمع ہوئے۔

تاہم احتجاج میں صورتحال اس وقت مزید کشیدہ ہوگئی تھی جب گزشتہ روز اس قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں اور حامیوں کے درمیان تصادم ہوا جبکہ اس دوران پولیس بھی وہاں موجود رہی۔

شہریوں کو مذہب کی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا—فوٹو:رائٹرز
شہریوں کو مذہب کی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا—فوٹو:رائٹرز

منگل کو بھی کشیدگی برقرار نظر آئی جس کی وجہ سے شہر کے مختلف علاقوں میں اسکولز بند رہے جبکہ تقریباً 5 میٹرو اسٹیشن بھی بند کردیے گئے۔

ادھر پیر کو تصادم کے بعد گرو تیگ بہادر ہسپتال کے ایڈیشنل میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر راجیش کالرا کا کہنا تھا کہ ہسپتال لائے گئے کچھ لوگوں کو گولیوں کے زخم آئے تھے۔

پولیس کی جانب پولیس نے آنسو گیس اور دھویں کے گرینیڈ استعمال کیے لیکن اسے مجمع کو منتشر کرنے میں کافی مشکل کا سامنا کرنا پڑا جبکہ دونوں اطراف سے پتھراؤ بھی کیا گیا، جس سے علاقہ میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگا۔

پرتشدد واقعات پر دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے ٹوئٹ کی کہ تشدد سے گریز کریں، اس سے کسی کو فائدہ نہیں، تمام مسائل کا حل پرامن طریقے سے نکلے گا۔

اس تمام صورتحال پر رائٹرز نے رپورٹ کیا کہ جھڑپوں کے درمیان گاڑیاں جلی ہوئی تھیں، رکاوٹیں ٹوٹیں ہوئی تھیں اور دھویں کے بادل اٹھ رہے تھے جبکہ مظاہرین کے مقابلے میں پولیس کی تعداد کم تھی۔

رائٹرز کے مطابق عینی شاہدین نے دیکھا کہ ایک مسلم مرد اور برقع میں موجود ایک خاتون کو قانون کے حق میں احتجاج کرنے والے درجنوں افراد نے لاٹھیوں اور سلاخوں سے تشدد کیا۔

پیر کو مقامی سیاست دان نے یوگیندرا یادیو نے تشدد کو ‘فرقہ وارانہ’ قرار دیا اور پولیس سے مداخلت کرنے کا کہا لیکن عینی شاہدین نے یہ دیکھا کہ زیادہ تر پولیس اہلکار شہریت قانون کے حق میں سامنے آنے والے ہندو گروپ کے ساتھ کھڑے رہے اور انہوں نے تشدد کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔

Facebook Comments