اتوار 19 مئی 2024

جرمنی میں امیر شہری امیر تر اور غریب غریب تر ہوتے ہوئے، نئی رپورٹ

جرمنی میں ایک نئی سرکاری رپورٹ سے واضح ہو گیا ہے کہ ملک میں سماجی عدم مساوات کے باعث پیدا شدہ خلیج کتنی بڑی ہے۔ رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔

جمیلہ کورودس ایک ایسی باہمت خاتون ہیں، جو ایک باقاعدہ تربیت یافتہ سیلز وومین ہیں۔ انہوں نے ابھی حال ہی میں جرمن نشریاتی ادارے اے آر ڈی کے ایک پروگرام میں شرکت کی، جس کا موضوع تھا: ”محنت کے باوجود غریب، کیا سماجی ترقی ایک کھوکھلا وعدہ بنتی جا رہی ہے؟‘‘

 غیر یقینی مستقبل
یہ تصویر جرمن وفاقی ریاست اور شہر بریمن کے غریب ترین سمجھے جانے والے علاقے کی ہے۔ بریمن میں ہر پانچویں شخص کو غربت کے خطرات لاحق ہیں۔ جرمنی میں غریب اسے تصور کیا جاتا ہے جس کی ماہانہ آمدنی درمیانے درجے کے جرمن شہریوں کی اوسط آمدنی سے ساٹھ فیصد سے کم ہو۔

وہ ایک بڑے آن لائن شاپنگ سٹور کے ویئر ہاؤس میں کلرک کی کل وقتی ملازمت کرتی ہیں مگر ان کے پاس ہر ماہ ادا کیے جانے والے لازمی اخراجات کے بعد گزر بسر کے لیے صرف تقریباﹰ 500 یورو (610 ڈالر) ہی بچتے ہیں۔

اس جرمن خاتون کارکن کو شکایت یہ ہے کہ جرمنی میں کام کرنے کے باوجود غریب رہنا روزمرہ کی کڑوی حقیقت بنتا جا رہا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ اسی بات کی ایک ایسی سرکاری رپورٹ بھی تصدیق کرتی ہے، جو ملک میں غربت سے متعلق جرمن وزارت محنت نے حال ہی میں جاری کی۔

اس رپورٹ کے اجراء سے پہلے اس کی چانسلر انگیلا میرکل کی سربراہی میں وفاقی جرمن کابینہ نے منظوری بھی دے دی۔ اس سرکاری رپورٹ میں سامنے آنے والے حقائق پر جرمن پارلیمان بنڈس ٹاگ میں بحث اگلے ماہ جون میں ہو گی

 عراق میں فعال انتہا پسند گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی دہشت گردی سے بچنے کے لیے ہزاروں ایزدی بچے بھی رواں برس بے گھر ہو گئے۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ بچے کب واپس گھروں کو لوٹ سکیں گے۔ عراق سے متصل ترک سرحد پر واقع ایک کیمپ میں ایک ایزدی بچے کی آنکھوں میں بھی غیر یقینی کی جھلک نمایاں ہے۔

تازہ ترین رپورٹ جن پریشان کن حقائق کی تصدیق کرتی ہے، ان میں یہ بات بھی شامل ہے: جرمنی میں امیر اور غریب کے درمیان خلیج اتنی تیزی سے وسیع ہوتی جا رہی ہے کہ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتے جا رہے ہیں اور اس تفریق میں کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے مزید شدت آ گئی ہے۔‘‘

اس رپورٹ کے اجراء کے بعد جرمن اپوزیشن سیاسی جماعتوں، ٹریڈ یونینوں اور سماجی فلاحی تنظیموں نے خطرے کی گھنٹیاں بجانا شروع کر دی ہیں۔

جرمنی میں سماجی فلاحی اور خیراتی اداروں کی نمائندہ سب سے بڑی ملکی تنظیم کے محقق اور اس ادارے کے روزگار سے متعلقہ امور کے شعبے کے سربراہ یوآخم روک کہتے ہیں، ”یہ رپورٹ اس امر کا ثبوت ہے کہ سماجی عدم مساوات سے پیدا ہونے والے بحران نے غریب ترین شہریوں کو ہی سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔‘‘

یوآخم روک نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت میں کہا، ”کورونا وائرس کی عالمی وبا اور اس کی وجہ سے پیدا شدہ بحرانی حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ کم آمدنی والے باشندوں کو ہی سب سے زیادہ خطرہ رہا کہ وہ اپنے روزگار اور یوں اپنی آمدنی سے محروم ہو جائیں۔ اس کے برعکس امراء کو اس حوالے سے بہت ہی کم جدوجہد کرنا پڑی۔‘‘

جرمنی میں غریب کس کو کہتے ہیں؟
جرمنی میں غریب ہونے کا معیار یہ ہے کہ کسی شہری کی ماہانہ آمدنی ملک میں ایک عام کارکن کی بعد از ٹیکس ماہانہ اوسط آمدنی کے 60 فیصد سے کم ہو۔ اس وقت یہ رقم 1176 یورو (1429 ڈالر) ماہانہ کے برابر بنتی ہے۔

 اس کے برعکس یورپی یونین کے اس سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں امیر ہر اس شہری کو گنا جاتا ہے، جس کی بعد از ٹیکس ماہانہ آمدنی 3900 یورو سے زیادہ ہو۔ لیکن دوسری طرف جرمنی کے بہت امیر شہریوں میں ملک بھر میں سپر مارکیٹوں کے سلسلے Lidl کے مالک ڈیٹر شوارٹس جیسے شہری بھی شامل ہیں، جن کی نجی دولت کا اندازہ 20 بلین یورو سے زیادہ لگایا جاتا ہے۔

امر اور غریب کے مابین خلیج میں اضافہ
نئی سرکاری رپورٹ کے مطابق ملک میں امیری اور غریب کے مابین خلیج وسیع ہوتی جا رہی ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ رپورٹ کے مطابق جرمنی میں امیر اور غریب شہریوں دونوں ہی کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اس کے برعکس اسی وسیع ہوتی ہوئی خلیج کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ملک میں متوسط مالی طبقے کے شہریوں کی تعداد پہلے کی طرح آج بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔

Facebook Comments