پیر 06 مئی 2024

روس کی جرمن غیر سرکاری تنظیموں پر پابندی کی کوشش

برلن نے ماسکو کی جانب سے تین جرمن غیر سرکاری تنظیموں (این جی او) کے خلاف کارروائی کے فیصلے پر تنقید کی ہے۔ ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ وہ روس اور جرمن شہریوں کو قریب لانے کے لیے کام کرتی رہی ہیں۔

 روس کے پراسیکیوٹر جنرل نے 26 مئی بدھ کے روز اپنے ایک اہم فیصلے میں جرمنی کے تین غیر سرکاری اداروں کو غیر ضروری بتاتے ہوئے انہیں ‘ناپسندیدہ” قرار دے دیا۔ روس کے اس فیصلے پر جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے شدید نکتہ چینی کی ہے۔

روس کے پراسیکیوٹرجنرل نے ‘فورم آف رشیئن اسپیکنگ یورپیئنز’، ‘سینٹر فار لبرل موڈرینٹی’ اور جرمن رشیئن ایکسچینج’ نامی جرمن غیر سرکاری  تنظیموں کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے ایک قانون کے تحت کارروائی کی ہے جس کا مقصد روسی حکومت کے خلاف تنقید کو روکنا ہے۔

روس نے یہ اقدام کیوں کیا؟

روس کے پراسیکیوٹر جنرل کے دفتر کا دعوی ہے کہ جرمنی کے ان تینوں غیر سرکاری تنظیموں کی سرگرمیوں سے، ”روسی فیڈریشن کے آئینی حکم اور سلامتی کی اساس کو خطرہ لاحق ہے۔” ان میں سے دو تنظیموں نے سینٹ پیٹرز برگ میں ہونے والے روس جرمن فورم میں بھی شرکت کی تھی جو سول سوسائٹی کے ساتھ دونوں ممالک کے تھنک ٹینک کے ماہرین اور پالیسی سازوں کو ایک ساتھ لانے کا کام کرتی ہیں۔

یہ قدم ایک ایسے وقت اٹھایا گیا ہے جب روس نے بیرونی امداد حاصل کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں سے متعلق ایک متنازعہ قانون متعارف کیا ہے جس کے تحت انہیں ”بیرونی ایجنٹ” کے طور پر ملک میں رجسٹر کرنا لازمی ہو گیا ہے۔

 کوسووو کے تنازعے کے ابتدائی اشارے

کوسوو کے تنازعے کی صورت حال سن 1990 کی دہائی میں خراب سے خراب تر ہوتی گئی۔ امن کی تمام کوششیں ناکامی سے دوچار ہونے کے بعد چوبیس مارچ سن1999 کو مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے سرب فوج کے خلاف اپنے فضائی حملوں آغاز کر دیا۔ یہ حملے گیارہ ہفتوں تک جاری رہے۔

جن تین تنظیموں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے ان کے ہیڈ کوارٹرز برلن میں ہیں۔ سینٹر فار لبرل موڈرنٹی اپنے آپ کو جمہوریت اور آزادی کے لیے کام کرنے والا ایک تھنک ٹینک بتاتا ہے۔ یہ ادارہ ماسکو میں انسانی حقوق کی علمبردار تنظیم سکاروف سینٹر کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔ اس ادارے نے روسی اقدام کو غیر ذمہ دارانہ سیاسی کارروائی بتایا ہے۔ اس کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا، ”اس کا مقصد ہمارے روسی شراکت داروں کے ساتھ ہمارے تعاون کو روکنا ہے۔ ہم نے روس میں پوٹن کے اقتدار پر اپنی نکتہ چینی کو کبھی مخفی نہیں رکھا اور اس سلسلے میں روسی سول سوسائٹی کے ساتھ ہم مزید تعاون کی کوشش جاری رکھیں گے۔”

جرمن رشیئن ایکسچینج نامی ادارہ بھی سینٹ پیٹرز برگ میں اپنے دیگر معاونین کی مدد سے پروگرام منعقد کرتا رہا ہے۔ ‘رشیئن اسپیکنگ یورپیئنس’ کے نام جا ادارہ اس روسی مطالبے کی مخالفت کرتا ہے جس میں کریملن یورپ میں روسی زبان بولنے والوں کا اعتراف کرنے کی مانگ کرتا رہا ہے۔

 تریوی فوارہ، روم

اطالوی دارالحکومت میں واقع اس فوارے کے حوالے سے روایت ہے کہ اس میں سکہ پھینکیں تو آپ دوسری مرتبہ بھی روم آئیں گے۔ سالانہ بنیاد پر روم کی شہری حکومت کو اس فوارے کے تالاب سے تقریباً ایک ملین یورو کے سکے حاصل ہوتے ہیں۔ یہ مقام فلم بنانے والوں کو بہت پسند ہے۔

 جرمنی کا رد عمل

روسی وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے ان پابندیوں پر اپنے رد عمل میں کہا، ”ان تنظیموں کے کاموں پر پابندی عائد کرنے سے، جو ہمارے دونوں ممالک اور عوام کے مابین افہام و تفہیم کے لیے کوشاں ہیں، روس کے ساتھ بہتر تعلقات کے حصول کی ہماری کوششوں کو ایک زبردست دھچکا لگا ہے۔ ان کے کام کے لیے اس طرح کے اقدام کوئی جواز نہیں ہو سکتا ہے۔”

جرمن وزیر خارجہ نے روس سے اس کارروائی کو واپس لینے پر زور دیتے ہوئے،  ”سول سوسائٹی کے ساتھ اس طرح کے آزادانہ تبادلہ خیال کی حوصلہ افزائی کی۔”  ان کا کہنا تھا، ”سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مجرم ٹھہرائے بغیر انہیں ان کا کام کرنے کی اجازت دینی چاہیے۔”

Facebook Comments