پیر 06 مئی 2024

جرمن پولیس کو آلو، سیب اور چیری چوری کرنے والوں کی تلاش

جرمن شہر فرائی بُرگ کی پولیس ایسے چوروں کی تلاش میں ہے، جو بہت بڑی مقدار میں آلو، سیب اور بھوسہ تک چوری کر لیتے ہیں۔ یہ نامعلوم چور ایسے ہی ایک تازہ واقعے میں رات کی تاریکی میں نو سو کلو گرام چیری چرا کر لے گئے۔

جنوبی جرمنی میں ٹیوبِنگن سے بدھ نو جون کے روز ملنے والی رپورٹوں کے مطابق جنوب مغربی شہر فرائی بُرگ کے ایک باغ سے پیر اور منگل کی درمیانی شب تقریباﹰ 900 کلو گرام چیری چرا لی گئی۔ پولیس نے بتایا کہ اس چوری کی وجہ سے اس باغ کے مالک کو پانچ ہزار یورو (چھ ہزار نوے ڈالر) سے زائد کا نقصان ہوا۔

‘چوروں کا کام آسان تھا‘
پولیس نے بتایا کہ اب تک کی چھان بین کے نتائج کے مطابق بظاہر کئی نامعلوم چور شہر کے مضافات میں ایک باغ میں گھس کر درجنوں درختوں سے چیری کی بالکل تیار فصل چرا لے گئے۔

فرائی بُرگ پولیس کے ایک ترجمان کے مطابق ان مجرموں کے لیے یہ کام اس لیے آسان ثابت ہوا کہ چیری پک جائے، تو اس کے درختوں یا ان کی شاخوں کو صرف زور سے ہلانا پڑتا ہے اور سارا پکا ہوا پھل نیچے زمین پر گر جاتا ہے۔

بعد ازاں یہ پھل بلا تاخیر فروخت کر دیا جاتا ہے یا اس سے برانڈی کی طرح کی بہت تیز جرمن شراب schnapps بنا لی جاتی ہے کیونکہ پکی ہوئی چیری بہت جلد خراب ہو جاتی ہے۔

 سیب انسانی جسم کے اہم ترین حصے یعنی دل کی صحت کے لیے انتہائی مفید ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق اس کی ایک بڑی وجہ سیب میں موجود فائبر ہے۔ ویب سائٹ ہیلتھ لائن کے مطابق سیب کے باقاعدگی سے استعمال کے باعث دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔

 زرعی پیداوار کی چوری کے واقعات
جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ کے شہر فرائی بُرگ کی پولیس ہزاروں یورو مالیت کی چیری کی چوری کے تازہ واقعے کو ایسے جرائم کے سلسلے کی تازہ کڑی کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ اس لیے کہ تقریباﹰ دو لاکھ تیس ہزار کی آبادی والے اس شہر اور اس کے مضافاتی زرعی علاقوں میں ماضی میں بھی اسی نوعیت کے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل وہاں سے بہت بڑی مقدار میں آلو کی فصل بھی چوری ہو گئی تھی۔ اس کے بعد نامعلوم چوروں نے دو مختلف واقعات میں ہزاروں کلو گرام سیب اور پھر انگور بھی چرا لیے تھے۔ گزشتہ برس تو اسی علاقے سے مویشیوں کے چارے کے طور پر ذخیرہ کرنے کی غرض سے تیار کردہ بھوسے کی بہت سے گانٹھیں بھی چرا لی گئی تھیں۔

 پولیس کو شبہ ہے کہ چرائی گئی زرعی پیداوار کو دیکھا جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان تمام جرائم کا مرتکب گروہ غالباﹰ ایک ہی ہے اور اس کے ارکان کا تعلق شاید خود بھی زرعی شعبے سے ہے۔

Facebook Comments