اتوار 19 مئی 2024

کورونا وائرس کے ڈیلٹا ویریئنٹ کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

بھارت کو کورونا لہر کی شدت کا سامنا ہے اور برطانیہ میں تعطیلات کے باوجود وائرس کی افزائش ہو رہی ہے۔ ادہر جرمنی میں بھی حکام اس کے نئے ویریئنٹ کے ممکنہ پھیلاؤ پر فکرمند ہیں۔

عالمی ادارہٴ صحت نے چند ہفتے قبل کورونا وائرس کے ویریئنٹس کی شناخت یونانی حروف تہجی سے کرانے کا نظام متعارف کرایا تھا۔ ایک حرف تہجی میں ایک ہی جیسی خاصیتوں کے حامل ویریئنٹس رکھے گئے ہیں۔ اس نظام کے تحت کورونا وائرس کے برطانوی، جنوبی افریقی اور بھارتی ویریئنٹس کو ایلفا، بِیٹا اور گیما کے نام دیے گئے ہیں۔ ایسے نام رکھنے کی وجہ ان کے بہت مشکل اور پیچیدہ سائنسی نام ہیں۔

ڈیلٹا ویریئنٹ کیا ہے؟
کورونا وائرس کے اس ویریئنٹ کی نشاندہی سب سے پہلے بھارتی ریاست مہاراشٹر میں اکتوبر سن 2020 میں ہوئی تھی۔ ابتدائی نشاندہی کے بعد سے اس کا پھیلاؤ بہت تیزی سے جاری ہے۔ اب بھارت کے علاوہ کئی اور ممالک میں بھی اس کی موجودگی ثابت ہو چکی ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس کے اس ویریئنٹ کو باعثِ تشویش قرار دے رکھا ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے ڈیلٹا کے علاوہ ایلفا، بِیٹا اور گیما ویریئنٹس کو بھی قابلِ تشویش قرار دے رکھا ہے۔

ڈیلٹا ویریئنٹ کی میوٹیشن
خطرناک ڈیلٹا ویریئنٹ کی ہیئت میں تبدیلی جاری ہے اور اس کی کئی میوٹیشنز سامنے آ چکی ہیں۔ اب تک سائنسدان ان میوٹیشنز کے حقیقی فنکشنز سے متعلق زیادہ کچھ نہیں جانتے۔ لندن کی کوئین میری یونیورسٹی کی متعدی امراض کی ماہر دپتی گرداسانی کا کہنا ہے کہ فی الحال سائنسدان یہ جاننے کی کوشش میں ہیں کہ آیا یہ میوٹیشن ویکسین لگائے جانے کے بعد انسانی مدافعتی نظام سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔

اس وقت تک دنیا کے 80 ممالک میں ڈیلٹا ویریئنٹ کی نشاندہی یا موجودگی کی تصدیق ڈبلیو ایچ او کر چکا ہے۔ عالمی سائنسی معاملات پر نگاہ رکھنے والے بین الاقوامی ادارے GISAID کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں اس ویریئنٹ کی تشخیص ہزاروں مریضوں میں ہو چکی ہے۔

ڈیلٹا ویریئنٹ اور ڈیلٹا ویریئنٹ پلس
ایسی رپورٹیں بھی سامنے آئی ہیں کہ اب ڈیلٹا ویریئنٹ کی ایک ذیلی قسم بھی پیدا ہو گئی ہے۔ اس کو ڈیلٹا پلس یا AY.1 کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ذیلی قسم جنوبی افریقہ میں پائے جانے والے بِیٹا ویریئنٹ کی میوٹیشن بھی سمجھی جا رہی ہے۔

اس کی بھی بے شمار مریضوں میں تشخیص ہو چکی ہے۔ دپتی گرداسانی کا کہنا ہے کہ یہ قسم بھی انسانی جسم میں ویکسین سے بچنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اس کی ایک سے دوسرے فرد میں منتقلی کی شرح بہت زیادہ ہے۔ گرداسانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس نئی میوٹیشن کے بارے میں بھی زیادہ معلومات تاحال دستیاب نہیں۔

برطانیہ میں پھیلتا ڈیلٹا ویریئنٹ
برطانوی حکام نے تصدیق کی ہے کہ ڈیلٹا ویریئنٹ کی تشخیص بیالیس ہزار مریضوں میں ہو چکی ہے۔ متاثرین کی یہ تعداد نو جون تک کی تھی۔ دو سے نو جون تک کے درمیان اس ویریئنٹ کے مریضوں میں تیس ہزار کا اضافہ ہوا تھا۔ نو جون کے بعد ایسے مریضوں کی تعداد میں اضافے کا قوی امکان ہے۔ برطانیہ کے قومی ادارے پبلک ہیلتھ سروس کا کہنا ہے کہ کووڈ انیس کے نوے فیصد نئے مریضوں میں ڈیلٹا ویریئنٹ ہی پایا گیا ہے۔

ڈیلٹا ویریئنٹ کتنا خطرناک ہے؟
ابھی تک ڈیلٹا ویریئنٹ کے بارے میں کافی ڈیٹا میسر نہیں اور نہ ہی یہ معلوم ہے کہ کتنی انسانی اموات کی وجہ یہ ویریئنٹ بنا۔ برطانیہ میں یکم فروری سے سات جون کے درمیان کم از کم بیالیس افراد کی موت کی وجہ ڈیلٹا ویریئنٹ ہی بتائی گئی ہے۔ ان میں سے تیئیس افراد کو ابھی ویکسین نہیں لگی تھی۔ اس ویریئنٹ کے تیرہ سو مریضوں کو ہسپتالوں میں داخل کرایا گیا۔ ڈیلٹا ویریئنٹ کے خلاف بائیو این ٹیک فائزر کی ویکسین چھ فیصد کم مؤثر بتائی گئی ہے۔

Facebook Comments