منگل 30 اپریل 2024

صدر مملکت عارف علوی کو N-95 ماسک پہننے پر شدید تنقید کا سامنا

صدر مملکت عارف علوی کو N-95 ماسک پہننے پر شدید تنقید کا سامنا

اسلام آباد: ایسے وقت میں جب ملک میں ایک ہی دن میں 3 ہزار سے زائد مریضوں میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی اور کوئٹہ میں ڈاکٹروں کی جانب سے حفاظتی کٹس کے لیے احتجاج اور ان پر پولیس کے تشدد کے بعد صدرمملکت ڈاکٹرعارف علوی کی جانب سے ماسک N-95 پہن کر اجلاس میں شریک ہونے پر انہیں سخت تنقید کا سامنا ہے۔

واضح رہے کہ ڈاکٹر عارف علوی لاہور کے ایک اجلاس میں ماسک N-95 پہن کر شرکت ہوئے جس کی تصاویر اور ویڈیو وائرل ہوگئی۔

مزیدپڑھیں: بلوچستان: پاکستان کی کورونا وائرس پر بھارتی میزبانی میں منعقدہ اجلاس میں عدم شرکت

شعبہ صحت سے وابستہ طبی عملے بشمول ڈاکٹروں نے ڈاکٹر عارف علوی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

واضح رہے کہ حکومت لوگوں کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ صرف قرنطینہ یا آئسولیشن سینٹر میں فرائض انجام دینے والے طبی عملے کے لیے ماسک N-95 پہننا ضروری ہے۔

اس صورتحال میں صدر عارف علوی نے ماسک N-95 پہن کر پنجاب حکومت کی جانب سے لاہور میں سول سیکریٹریٹ کے دربار ہال میں ’وائرس 19: روک تھام ، تخفیف اور کنٹرول’ کے حوالے سے بریفنگ سیشن کی صدارت کی۔

اس موقع پر انہوں نے شرکا سے خطاب بھی کیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے پہلے بھی الزام لگایا تھا کہ ڈاکٹر ذاتی حفاظتی سازوسامان (پی پی ای) کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:ہاؤسنگ اسکینڈل کیس: اسلام آبادہائیکورٹ نے نیب سے رپورٹ طلب کرلی

انہوں نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ایک ہدایت نامہ تیار کیا گیا ہے جس کے مطابق صرف آئسولیشن وارڈوں میں کام کرنے والے طبی عملے کو N-95 ماسک پہننے کا مشورہ دیا گیا۔

انہوں نے تاکید کی تھی کہ یہاں تک کہ ہسپتالوں میں انتہائی نگہدشت وارڈز کے طبی عملے کے لیے N-95 ماسک پہننا ضروری نہیں ہے۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے صدر مملکت کا نام لیے بغیر بیان جاری کیا کہ سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کو N-95 ماسک نہیں پہننا

بیان میں کہا کہ پی ایم اے نے مشاہدہ کیا ہے کہ کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے طبی عملے کے حفاظتی کٹس کا غلط استعمال کیا جارہا ہے، خاص طور پر N-95 ماسک کا غلط استعمال پی ایم اے ممبروں اور عام عوام کی ایک بڑی تعداد نے دیکھا ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ ’ان دنوں سیاستدان اور بیوروکریٹس اکثر ملاقاتوں اور دوروں کے دوران N-95 ماسک پہننے ہوئے دیکھے جاتے ہیں جبکہ صحت کے پیشہ ور افراد کو N-95 ماسک اور پی پی ای کی شدید قلت کا سامنا ہے‘۔

بیان میں کہا کہ ’یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ N-95 ماسک ہر ایک کے لیے ضروری نہیں ہے، قرنطینہ یا آئسولیشن میں کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرنے والے طبی عملے کے لیے ماسک N-95 ضروری ہوتا ہے۔

پی ایم اے نے زور دیا کہ ڈاکٹروں کو تحفظ فراہم کرنا چاہیے کیونکہ وہ کورونا وائرس کے خلاف صف اول کے سپاہی ہیں۔

پی ایم اے کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا کہ طبی عملے اور عام لوگوں کے لیے مختلف اقسام کے ماسک دستیاب ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شہری کپڑے والے ماسک استعمال کرسکتے ہیں جنہیں ہر روز دن دھونا ضروری ہے، جراحی کا ماسک طبی عملے کے لیے ہے جو بنیادی دیکھ بھال کی سطح پر اور سرجری کے دوران غیر کورونا مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میڈیا کو اس قسم کی آگاہی کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔

مزیدپڑھیں: کووڈ 19 کے شکار افراد کس وقت اس وائرس کو آگے منتقل کرتے ہیں؟

انہوں نے بتایا کہ N-95 ماسک خاص طور پر مہلک وائرس کے مریضوں کے علاج کرنے والے طبی عملے کے تحفظ کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کو مراسلہ

ادھر پاکستان ینگ فارماسسٹ ایسوسی ایشن نے کوئٹہ میں پی پی ای کی عدم دستیابی کے خلاف احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں، نرسوں، فارماسسٹ اور پیرا میڈیکس پر تشدد کی شدید مذمت کی۔

وزیر اعظم عمران خان کو لکھے گئے مراسلے میں ایسوسی ایشن نے ان سے اپیل کی کہ وہ تحقیقات کریں کہ پی پی ای کی فراہمی میں کمی کیوں ہے؟۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے 27 فروری 2020 کو لکھے گئے مراسلے میں ہم پہلے ہی درخواست کر چکے ہیں کہ ہمارے پولیس اہلکار (پولیس، ایف آئی اے، آئی بی، اے ایس ایف، اے این ایف وغیرہ)، ہسپتال کا عملہ (ڈاکٹروں، نرسوں، فارماسسٹ، پیرا میڈیکل عملہ وغیرہ) اور اساتذہ (اسکول اساتذہ، کالج پروفیسرز، یونیورسٹی کے پروفیسرز وغیرہ) کو کورونا وائرس کے خلاف ماسک نہیں ہیں اور انہیں وائرس سے خطرہ ہے۔

خط میں مزید کہا گیا کہ ’پاکستان میں ماسک اور تحفظ کی شدید قلت ہے جس کے تحت 2 کروڑ سے زیادہ فیس ماسک اور دیگر حفاظتی چیزیں پاکستان سے اسمگل کی گئیں‘۔

Facebook Comments