جمعہ 17 مئی 2024

افغان طالبان نے عوام کو کورونا سے بچانے کیلئے آگاہی مہم شروع کردی

افغان طالبان نے عوام کو کورونا سے بچانے کیلئے آگاہی مہم شروع کردی

طالبان نے افغانستان کو کورونا وائرس کے موذی مرض سے بچانے اور اس کا پھیلاؤ روکنے کیلئے مہم شروع کردی ہے۔

افغانستان میں اب تک 400افراد میں وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے لیکن ملک میں نظام صحت کی بدترین صورتحال کے سبب وائرس کے پھیلاؤ کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

مزید پڑھیں: لاک ڈاؤن پر عملدرآمد کرانے پر پولیس سے بدتمیزی کرنے والا شہری گرفتار

افغانستان کے صوبے جوزجان کے گاؤں سے تعلق رکھنے والے 55سالہ خیراللہ کو 27مارچ کو بعد نماز جمعہ منعقد ہونے والے اجلاس کے لیے بلایا گیا تو جو کچھ وہاں ہوا وہ اس کے لیے تیار نہ تھے۔

غیرمعمولی سرد موسم بہار کے باوجود مکمل طور پر کورونا سے بچطاؤ کے حفاظتی لباس پہنے اور کلاشنکوف تھامے ہوئے طالبان نے ان کا اور ان کے پڑوسیوں کا کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے منعقد ہونے والی ورکشاپ میں استقبال کیا۔

خیراللہ نے خبر رساں ادارے الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طالبان ایک ہفتے سے اس طرح کی آگاہی مہم چلا رہے ہیں، وہ لوگوں کو دستانے اور ماسک پہننے کی ترغیب دے رہے ہیں، ہاتھ صابن سے دھونے کی بات کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: وفاقی کابینہ میں بڑے پیمانے پر رد و بدل، کئی وزرا کے قلمدان تبدیل

انہوں نے کہاکہ طالبان نے شادیوں سمیت تمام عوامی اجتماعات کو منسوخ کردیا ہے اور لوگوں کو مسجد کے بجائے گھروں میں نماز پڑھنے کی ہدایت کی ہے۔
طالبان کی جانب سے صوبہ بغلان میں مقررہ کردہ نئے ڈائریکٹر صحت قاری خالد ہجران نے کہا کہ ہمارے ہیلتھ کمیشن نے ہدایات دی تھیں کہ لوگوں میں آگاہی مہم چلائی جائے جو ہم اپنے کنٹرول والے علاقوں میں چلا رہے ہیں، ہم ان اضلاع میں پمفلیٹس بانٹ رہے ہیں جن میں کورونا سے بچاؤ کی ہدایات اور احتیاطی تدابیر درج ہیں۔

افغانستان کی وزارت صحت نے طالبان کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔

وزارت صحت کے ترجمان وحیداللہ مایر نے کہا کہ ہم نے طالبان کی جانب سے چلائی جانے والی مہم کی سوشل میڈیا پر تصاویر دیکھی ہیں اور ان کے ارادوں سے قطع نظر ہم کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں ہر کسی کے تعاون کو سراہتے ہیں۔

خیراللہ اور طالبان کی جانب سے دکھائی گئی کورونا وائرس کی ورکشاپ کی تصاویر میں طالبان کو مکمل طور پر حفاظتی لباس اور آلات سے لیس اور ماسک پہنے دیکھا جا سکتا تھا جبکہ ان کے ہاتھوں میں جراثیم کش اسپرے بھی تھے اور ان میں سے کچھ تصاویر میں طالبان کا جھنڈا اور لوگو بھی نمایاں تھا۔

طالبان کے جنرل کمیشن فار پبلک ہیلتھ کی جانب سے چھاپے گئے اعلامیے میں عوام کو نمازیں پڑھنے، پاک صاف رہنے، حلال کھانا کھانے کے ساتھ ساتھ طبی تجاویز بھی دی گئی ہیں۔

ہجران نے کہا کہ ہم گاؤں دیہاتوں کے عوام کو ان سبزیوں کی فہرست بھی فراہم کررہے ہیں جس میں زیادہ وٹامن سی ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا کے زیادہ سے زیادہ مریضوں کو ملیریا سے بچاؤ کی دوا دی جائے، فرانسیسی ڈاکٹرز
ادھر افغان وزارت صحت کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ ہم طالبان کے زیر قبضہ علاقوں سمیت ملک کے تمام صوبوں میں تربیت یافتہ محکمہ صحت کے ورکرز اور این جی اوز کے ہمراہ کورونا وائرس سے بچاؤ کی مہم چلا رہے ہیں۔

طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ افغانستان میں کام کرنے والے محکمہ صحت کے عملے اور عالمی تنظیموں تک عوام کو محفوظ رسائی فراہم کر رہے ہیں۔

خالد ہجران نے کہا کہ ان علاقوں میں جو بھی عوام کی مدد کرنا چاہے گا ہم ان این جی اوز اور حکومتی ہیلتھ ورکرز کو کام کی اجازت دینے کے ساتھ ساتھ اور انہیں مکمل سپورٹ کریں گے، انہیں صرف آنے سے قبل ہم سےاجازت لینا ہو گی تک ہم ان کا جائزہ لے کر کام کرنے دیں، ہم لوگوں کی حفاظت کیلئے کسی بھی مدد کو قبول کرنے کیلئے تیار ہیں۔

گزشتہ سال ہی طالبان نے اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں عالمی ادارہ صحت اور ریڈ کراس کی سرگرمیوں پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے ان کے کام کرنے پر پابندی عائد کردی تھی۔

اکثر افغان شہریوں کو امید ہے کہ طالبان اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وبا کے دوران سیز فائر کے اقوام متحدہ کے مطالبے پر عمل کر سکتے ہیں۔

افغان وزارتت صحت کے ترجمان نے کہا کہ طالبان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر کورونا کا کوئی بھی مثبت کیس ہو تو وہ علاقے میں سیز فائر کا اعلان کردیں گے، میں نے بھی ان سے سیز فائر کے اعلان کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ ہمیں آپس میں لڑنے کے بجائے اس بیماری کے خلاف متحد ہو کر لڑنے کی ضرورت ہے۔

تاہم کورونا کے خلاف مہم اور دیگر فلاحی کاموں کے باوجود طالبان نے افغان سیکیورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس میں زیادہ تعداد میں شہری مارے جاتے ہیں۔

افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکا اور افغان طالبان کے درمیان معاہدہ ہوا تھا لیکن اس معاہدے کے باوجود افغان سیکیورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ بند نہ ہوا۔

خیراللہ نے کہا کہ کورونا وائرس سے تنازع کی شدت میں کمی نہیں آئی، یہ ابھی بھی کئی علاقوں میں آپس میں لڑ رہے ہیں اور جب تک یہ لڑائی نہیں رکتی، اس وقت تک ڈاکٹرز اور محکمہ صحت کا عملہ کھل کر کام نہیں کر سکتا۔

طالبان نے لڑائی کا عمل تو نہیں روکا لیکن انہوں نے کورونا وائرس کے کطرے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اپنے جنگجوؤں کو محاذ جنگ سے ہٹا کر کورونا وائرس کی آگاہی مہم کا کام سونپ دیا ہے۔

انہوں نے متاثرہ علاقوں میں لاک ڈاؤن نافذ کردیا ہے اور خصوصاً ایران سے واپس لوٹنے والے افغان مہاجرین سمیت تمام مشتبہ اراد کو قرنطینہ میں رہنے کی ہدایت کی ہے۔

خیراللہ کا کہنا تھا کہ دو ہفتہ قبل ایران سے واپس آنے والے دو افراد کو قرنطینہ میں رکھ دیا گیا تھا، انہیں اپنے گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی اور بعد میں ان کا ٹیسٹ بھی کیا گیا تھا۔

کچھ صوبوں میں حکومت کے قرنطینہ سینٹر سے بھاگنے والے افراد کو طالبان نے اپنے پاس قید کر کے قرنطینہ میں رکھ دیا ہے۔

ایران میں 20لاکھ افغان مہاجرین رہتے ہیں جن میں سے ہزاروں کو صوبہ ہرات میں مشترکہ مغربی سرحد کے ذریعے افغانستان بھیج دیا گیا ہے جس سے یہ صوبہ کورونا کا مرکز بن گیا ہے۔

افغانستان سے رپورٹ ہونے والے 400 میں سے 200 سے زائد ہرات سے رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ 10 میں سے ہلاک ہونے والے 7افراد بھی اسی صوبے سے تعلق رکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:شارٹس: یوٹیوب نے ٹِک ٹاک کی ٹکر کی ایپ پر کام شروع کردیا

طالبان نے حیران کن طور پر دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس ٹیسٹ کرنے کے لیے کٹس بھی موجود ہیں جہاں دوسری جانب افغان محکمہ صحت کے ہیلتھ ورکرز کے لیے ٹیسٹ کٹس ایک مسئلہ بنی ہوئی ہیں۔

خالد پجران نے بتایا کہ ہمیں طالبان ہیلتھ کمیشن کی جانب سے صوبہ بغلان کے لیے 950ہیلتھ کٹس فراہم کی گئی تھیں تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ ہیلتھ کٹس انہیں کہاں سے ملیں۔

Facebook Comments