جمعہ 26 اپریل 2024

ڈاؤ یونیورسٹی کے ماہرین نے کورونا کی راہ میں مزاحم جینیاتی تبدیلیاں دریافت کرلیں

ڈاؤ یونیورسٹی کے ماہرین نے کورونا کی راہ میں مزاحم جینیاتی تبدیلیاں دریافت کرلیں

کراچی: ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (ڈی یو ایچ ایس) کے ماہرین نے انسانی جین میں قدرتی طور پر پائی جانے والی دو ایسی تبدیلیوں کا پتہ لگا لیا ہے جو نوول کورونا وائرس کے خلاف مزاحمت کرسکتی ہیں اور جن انسانوں کی جین میں یہ تبدیلیاں پائی جاتی ہیں کورونا وائرس ان کے جسم میں جاکر غیر موثر ہوسکتا ہے۔

مذکورہ تحقیق وائرولوجی کےبین الاقوامی جریدے جرنل آف میڈیکل وائرولوجی میں حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ ریسرچ کے نتیجے میں عالمی وبا کورونا وائرس کےلیے طبی وسائل کے تعین میں مدد ملے گی۔

ڈاؤ یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق اسکریننگ کے دوران لیے گئے ٹیسٹ سیمپل سے ہی مذکورہ جییناتی تغیرات کی موجودگی کا بھی علم ہوسکتا ہے۔
کراچی میں ایک شخص سے گھر کے 7 افراد کورونا وائرس کا شکار
یہ بھی پڑھیں:عالمی وبا کے 100 دن، ہم کیا کچھ جان چکے ہیں؟

ماہرین کا کہنا تھا ک ان دونوں یا کسی ایک تبدیلی کی موجودگی سے کورونا وائرس کی علامات میں شدت آنے کے امکانات کم ہوجائیں گے۔

اس طرح کورونا سے متاثرہ شخص کو محض گھر کے ایک کمرے میں قرنطینہ کی ضرورت ہوگی جبکہ دوسری صورت میں کورونا سے متاثرہ شخص کو دواؤں کے ساتھ اسپتال کے آئسولیشن وارڈ اور وینٹی لیٹر کی ضرورت بھی پڑسکتی ہے۔

ڈاؤ کالج آف بائیو ٹیکنالوجی کے وائس پرنسپل ڈاکٹر مشتاق حسین کی سربراہی میں کام کرنے والی طلبا اور اساتذہ کی ٹیم نے ایک ہزار انسانی جینوم کی ڈیٹا مائننگ کرکے معلوم کیا کہ اے سی ای ٹ2(اینجیو ٹینسن کنورٹنگ انزائم 2) نامی جین میں ہونے والے دو تغیرات ایس انیس پی اور ای تھری ٹو نائن جی کورونا کی راہ میں مزاحم ہوسکتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق کورونا کا سبب بننے والا سارس کووِڈ2 انفیکشن کے ابتدائی مرحلے میں اے سی ای 2 (اینجیو ٹینسن کنورٹنگ انزائم 2) سے ہی جا کر جڑتا ہے۔

مزید پڑھیں:خیبرپختونخوا: کورونا سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ منگاہ 21 روز بعد کھول دیا گیا

محققین نے ایکس ٹینسو اسٹرکچرل اور ڈاکنگ تکنیک کے ذریعے پیش گوئی کی ہے کہ اے سی ای 2 میں قدرتی طور پر مذکورہ دو تغیرات کی موجودگی نوول کورونا وائرس کی راہ میں مزاحم ہوسکتی ہے۔

اس تحقیق سے اس کی تشخیص اور علاج کی امکانی راہ تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ موجودہ طبی وسائل کا بہتر تعین کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

ریسرچ ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر مشتاق حسین نے بتایاکہ ڈیٹا مائننگ میں جن انسانی جینوم کی ڈیٹامائننگ کی گئی ان میں چین ،لاطینی امریکا اور بعض یورپی ممالک شامل تھے جو کورونا وائرس سے سب سے بری طرح متاثر ہوئے۔

یہاں یہ امر قابل ذکرہے کہ مذکورہ تجزیے میں اے سی ای 2 میں مذکورہ تغیرات کی شرح نہایت کم پائی گئی۔

ڈاؤ یونیورسٹی کی تحقیقی ٹیم میں ڈاکٹرنصرت جبیں، فوزیہ رضا، ثانیہ شبیر، عائشہ اشرف بیگ، انوشہ امان اللہ اور بسمہ عزیز شامل تھے۔

ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے ریسرچ ٹیم کےسربراہ اور اراکین سے ملاقات کرکے ان کی کاوشوں کو سراہا اور بروقت ریسرچ اور اس کی بین الاقوامی سطح پر پذیرائی پر مبارکباد پیش کی۔

انہوں نے کہاکہ ڈاؤ یونیورسٹی میں کووِڈ 19 کے متعلق مختلف پہلووں سے ریسرچ ہورہی ہے اور ان کے مثبت نتائج بھی حاصل ہورہے ہیں توقع ہے کہ اس عالمی وبا سے انسانوں کو بچانے کی یہ کوششیں کامیابی سے ہم کنار ہوں گی۔

Facebook Comments