منگل 30 اپریل 2024

کیا نوول کورونا وائرس اسمارٹ فون اسکرین پر زندہ رہ سکتا ہے؟

کیا نوول کورونا وائرس اسمارٹ فون اسکرین پر زندہ رہ سکتا ہے؟

ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ آخری بار آپ نے اپنے فون کو کب صاف کیا تھا؟

اکثر افراد کا جواب یہی ہوگا کہ یاد نہیں۔

اگر آپ کا جواب بھی یہی ہے تو اس بات کے بہت زیادہ امکانات ہیں کہ آپ کے اسمارٹ فون کی اسکرین پر کسی ٹوائلٹ سے بھی زیادہ جراثیم ہوسکتے ہیں اور ان میں اس وقت دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا نوول کورونا وائرس بھی ہوسکتا ہے۔

شاید آپ کو علم ہو کہ نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے بیشتر کیسز کی شدت معتدل ہوتی ہے اور اس کی روک تھام کا بہترین طریقہ بھی بہت آسان ہے یعنی اچھی صفائی۔

اپنے ہاتھوں کو اکثر کم از کم 20 سیکنڈ تک اچھی طرح رگڑ کر صاف کریں، کھانستے یا چھینکتے ہوئے ناک اور منہ کو ڈھانپ لیں جبکہ بیمار افراد کے قریب جانے سے گریز کریں۔

متاثرہ فرد کی کھانسی یا چھینک کے دوران خارج ہونے والے ننھے ذرات 3 سے 6 فٹ تک جاسکتے ہیں اور وہاں سے ہوا کے ذریعے صحت مند افراد میں جاکر ان کو بیمار کرسکتے ہیں۔

مگر یہ ایک سے دوسرے انسان میں وائرس کی منتقلی کا واحد ذریعہ نہیں کیونکہ کھانسی یا چھینک کے دوران خارج ہونے والے ذرات میں موجود وائرس مختلف اشیا کی سطح پر کئی دن تک زندہ رہ سکتے ہیں۔

Tennessee یونیورسٹی ہیلتھ سائنس سینٹر کے امیونولوجسٹ Rudra Channappanavar کے مطابق مختلف اشیا میں سے گلاس جیسے اسمارٹ فون کی اسکرین پر کورونا وائرسز 96 گھنٹے یا 4 دن تک کمرے کے درجہ حرارت میں زندہ رہ سکتے ہیں۔

یہ تخمینہ 2003 میں سارس کی وبا کے دوران جمع کیے جانے والے ڈیٹا سے لگایا گیا اور عالمی ادارہ صحت نے اسے رپورٹ کیا۔

سارس اور نوول کورونا وائرس جینیاتی طور پر کزن ہیں، دونوں ہی نظام تنفس کو متاثر کرتے ہیں اور یکساں جینیاتی میٹریل آر این اے کے حامل ہیں۔

سارس کی وبا کا باعث بننے والے وائرس کا تکنیکی نام سارس کوو رکھا گیا تھا جبکہ نئے وائرس کو سارس کوو 2 کا نام دیا گیا۔

اس نظریے کے مطابق فون اسکرین سے نوول کورونا وائرس کا جسم میں منتقل ہونا بہت آسان ہے یعنی اگر کوئی متاثرہ فرد آپ کے فون کے گرد کھانستا یا چھینکتا ہے اور آپ اس ڈیوائس کو استعمال کرتے ہیں تو وہ ذرات ہاتھوں میں منتقل ہوسکتے ہیں اور پھر ناک یا چہرے کو چھونے پر جسم کے اندر جاسکتے ہیں۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ لوگ اپنے فونز اور چہروں کو بہت زیادہ چھوتے ہیں اور ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ لوگ اوسطاً ہر گھنٹے میں 23 بار چہرے کو چھوتے ہیں اور اکثر وہ یہ لاشعوری طور پر کرتے ہیں، یعنی ایسی عام عادت ہے جس کا بیشتر افراد کو احساس بھی نہیں ہوتا۔

ماضی میں مختلف تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ موبائل فون ایسی ڈیوائس ہے جو گھر میں سب سے زیادہ جراثیم سے آلودہ ہوتی ہے، جن میں سے اکثر تو ہمیں بیمار نہیں کرتے مگر وبا کے پھیلاﺅ میں یہ بیمار کرنے کا ممکنہ سبب بن سکتے ہیں۔

Rudra Channappanavar کے مطابق اگر آپ کووڈ 19 جیسے کسی انفیکشن کا شکار ہوجائیں اور وجہ معلوم نہ ہو تو اس کی وجہ اسمارٹ فون کا ڈسپلے بھی ہوسکتا ہے۔

مگر اچھی بات یہ ہے کہ اس کا حل بہت آسان ہے یعنی اپنے ارگرد کی اشیا کی سطح کو اچھی طرح صاف رکھا جائے۔

ویسے تو ٹچ اسکرین پر کلینرز کے استعمال کی اجازت اکثر فون کمپنیاں نہیں دیتیں مگر ایسے مائیکرو فائبر کپڑے دستیاب ہیں جو بیکٹریا کا خاتمہ کردیتے ہیں۔

اسی طرح کچھ ماہرین کے مطابق کبھی کبھار اینٹی بیکٹریل سے اس کی صفائی بھی فائدہ مند ہوتی ہے۔

اگر پھر بھی آپ فکرمند ہیں تو یاد رکھیں کہ ہاتھوں کی زیادہ صفائی سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور چہرے کو جس حد تک ممکن ہو کم چھونے کی کوشش کریں۔

Facebook Comments