جمعرات 02 مئی 2024

چار دوست

چار دوست
جرمنی میں ایک بہت ہی بڑا قصبہ تھا،جس کا نام”بریمین“تھا۔بریمین سے تھوڑے ہی فاصلہ پر ایک گاؤں تھا۔اس گاؤں میں ایک آدمی رہتا تھا۔اس آدمی کی آٹے کی چکی تھی جس میں وہ آٹا پیس کر بڑی بڑی بوریوں میں بھر کر گدھے پر لاد کرلے جایا کرتا۔
پورے ہفتے وہ کام کرتا صرف اتوار کو وہ چھٹی کرتا،اس کا گدھا بہت سالوں سے سخت محنت کررہا تھا۔وہ سارا سارا دن اناج کی بوریاں اٹھاتا اور اپنے کام میں ذرا سستی نہ کرتا۔وقت گزرنے کے ساتھ ہی گدھا بھی بوڑھا ہو گیا۔اب اناج سے بھری ہوئی بوریاں اسے بہت ہی بھاری محسوس ہوتی تھی کیونکہ وہ بوڑھا ہو گیا تھا اور اس میں اتنی طاقت نہ رہی تھی کہ وہ بھاری بھاری بوریاں اٹھا کر لے جاسکے۔
اب آدمی بھی یہ سوچنے لگا کہ گدھا میرے کام کا نہیں،یہ بوجھ اٹھا نہیں سکتا،پھر میں اسے کھانے کو کیوں دوں۔
اب اسے کھانے کو ویسے بھی کم دیتا اور جب اس کے سامنے چارہ ڈالتا تو یہ سوچتا کہ اسے چارہ دینا بے کار ہے کیونکہ یہ گدھا پہلے کی طرح کام بھی نہیں کرتا۔
گدھا بھی سمجھ گیا کہ اب اس کا مالک اس کا پہلے کی طرح خیال نہیں رکھتا اور اسے کھانے کو چارہ بھی کم اور خراب والا دیتاہے۔اس نے فیصلہ کیا کہ اسے اس گھر سے بھاگ جانا چاہئے،مگر بھاگ کرکرے گا کیا؟اس کے لئے اس نے سوچا کہ مجھے ویسے بھی گانا پسند ہے تو میں گانا گاتا پھروں گا کیوں نہ بڑے قصبے بریمین میں چلا جاؤں،وہاں میوزک بینڈ توہو گا۔
اس میں شامل ہو جاؤں گا ،تو ایک دن موقع پا کروہ گھر سے بھاگ گیا اور بریمین جانے والی سڑک پر چل پڑا۔ابھی وہ بہت دور نہیں گیا تھا کہ اس نے سڑک کے کنارے ایک کتے کو لیٹا ہوا دیکھا۔وہ بری طرح ہانپ رہا تھا اور بہت تھکا ہوا معلوم ہورہا تھا۔
گدھے نے کتے سے پوچھا ”بوڑھے کتے ،تمہیں کیا ہوا ہے۔یہاں کیوں لیٹے ہو؟“
کتے نے کہا”میں بوڑھا ہو گیا ہوں اور اب شکار نہیں کر سکتا ہوں اس لیے میرا مالک سوچ رہا تھا کہ وہ مجھے مار ڈالے۔اس لیے میں گھر سے بھاگ آیا۔
مگر میں سوچ رہا ہوں کہ میرا گزارا کیسے ہو گا۔“
گدھے نے کہا،تم میرے ساتھ کیوں نہیں چلتے،میں بھی گھر سے بھاگ کر آیا ہوں۔میں بھی بوڑھا ہو گیا ہوں اس لیے اپنے مالک کی بھاری بھاری بوریاں نہیں اٹھا سکتا اور میرا مالک ایک بے کار کو چارا نہیں کھلا سکتا۔
میں بریمین جارہاہوں تاکہ ٹاؤن بینڈ میں شامل ہو جاؤں۔تم بھی میرے ساتھ چلو میں باجا بجاؤں گا تم ڈھول بجانا۔کتے نے یہ سنا تو بہت خوش ہوا اور گدھے کے ساتھ چل پڑا۔اب یہ دونوں بریمین کی طرف جانے والی سڑک پر جارہے تھے ابھی یہ زیادہ دور نہیں گئے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ سڑک کے کنارے ایک بلی بیٹھی ہوئی ہے اور بہت دکھی لگ رہی ہے۔
گدھے نے بلی سے پوچھا”اے بوڑھی بلی کیا بات ہے۔یہاں کیوں بیٹھی ہو؟“
بلی نے کہا”میں بوڑھی ہو گئی ہوں اور میرے دانت اتنے تیز نہیں رہے۔میں آگ کے پاس بیٹھی ہوتی تھی اور چوہے پکڑتی تھی۔اب میرے دانت کمزور ہو گئے ہیں تو میں چوہے نہیں پکڑ سکتی تو میری مالکہ نے سوچا کہ اب میں اس کے کام کی نہیں ہوں تو اس نے مجھے اپنے گھر سے نکال دیا۔
میں بھاگ کر کہاں جاؤں۔یہ میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔
گدھے نے کہا”تم ہمارے ساتھ کیوں نہیں چلتیں۔ہم بھی اپنے مالکوں سے بھاگ کر آئے ہیں۔اب ہم بریمین جارہے ہیں تاکہ ٹاؤن بینڈ میں شامل ہو سکیں۔تم وہاں رات کو گانا گایا کرنا۔
“بلی نے یہ بات سنی تو وہ بھی ان کے ساتھ جانے پر تیار ہو گئی۔اب یہ تینوں بریمین جانے والی سڑک پر چل دئیے۔چلتے چلتے انہیں تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ایک دیوار پر ایک مرغ بیٹھا بڑی زور سے بانگ دے رہا تھا۔
گدھے نے مرغے سے پوچھا”بوڑے مرغے کیا بات ہے،بڑے اداس لگ رہے ہو؟“
مرغے نے جواب دیا،میری مالکہ کے گھر میں کل کچھ مہمان آرہے ہیں اور میری مالکہ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ مجھے کاٹ کر میرا سوپ مہمانوں کے لئے بنائے ۔
اب میں زور زور سے بانگ دے رہاہوں کہ میں اب تک زندہ ہوں اور زندہ رہنا چاہتا ہوں۔
گدھے نے کہا”پریشان مت ہو۔“تم ابھی نہیں مرو گے تم ہمارے ساتھ کیوں نہیں چلتے ہم بریمین جارہے ہیں۔وہاں کے ٹاؤن بینڈ میں شامل ہوں گے۔
تمہاری آواز بہت اچھی ہے،تم ہماری مدد کرنا۔مرغے نے یہ سناتو بہت ہی خوشی سے ان کے ساتھ جانے پر تیار ہو گیا،اب یہ چاروں بریمین جانے والی سڑک پر چل پڑے۔ابھی یہ قصبہ میں پہنچے بھی نہیں تھے کہ رات ہو گئی۔ان سب نے فیصلہ کیا کہ یہیں جنگل میں رات گزار لی جائے۔
انہوں نے ایک درخت کو اپنے آرام کے لئے چنا۔
گدھا اور کتا درخت کے نیچے لیٹ گئے۔درخت کی نچلی شاخ پر بلی بیٹھ گئی اور سب سے اوپر مرغا بیٹھ گیا۔سونے سے پہلے مرغے نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔کافی فاصلے پر اس نے روشنی دیکھی۔اس نے اپنے ساتھیوں کو بلایا اور کہا”میں نے کچھ فاصلے پر روشنی دیکھی ہے۔
وہاں کوئی مکان ہو سکتاہے ،کوئی زیادہ دور بھی نہیں ہے،اگر ہم وہاں چلے جائیں تو ہمیں کچھ کھانے پینے کو بھی مل سکتاہے۔“
سارے دوستوں نے اس فیصلہ کو پسند کیا کیونکہ کہ وہ سارے دن کے بھوکے تھے۔انہوں نے روشنی کی طرف جانے کا فیصلہ کیا اور چلنے لگے۔
آخر وہ اس مکان تک پہنچ گئے۔ہاں وہ مکان ہی تھا ۔گدھا سب میں لمباتھا اس لیے اس نے جھانک کر کھڑکی سے دیکھا ۔
مرغے نے پوچھا:”تمہیں کچھ نظر آیا؟“
گدھے نے کہا ایک میزپر اچھی اچھی کھانے پینے کی چیزیں رکھی ہوئی ہیں اور کچھ ڈاکو انہیں کھاپی رہے ہیں۔
ان چاروں نے مشورہ کیا کہ ان ڈاکوؤں کو کیسے مار بھگائیں ،آخر انہوں نے منصوبہ بنا لیا۔گدھے نے اپنے اگلے کھر کھڑکی پر رکھے۔پھر کتا اچھل کر گدھے کی کمر پر چڑھ گیا۔بلی اچھل کر کتے کی کمر پر چڑھ گئی اور مرغا اڑ کر بلی کی گردن پر چڑھ گیا۔
ذرا سی دیر آواز نکالے بغیر انہوں نے یہ سب کر لیا ۔اب گدھے نے سر ہلا کر اشار ہ دیا اور اب سب نے ساتھ مل کر ایک ساتھ آوازیں نکالنی شروع کر دیں۔
گدھا رینکنے لگا۔کتا بھونکا ،بلی نے میاؤں،میاؤں کی،مرغا بولا ککڑوں کوں۔
یہ ساری آوازیں مل کر جو آواز بنی وہ اتنی خوفناک تھی کہ آپ نے اپنی ساری زندگی میں بھی اتنی خوفناک آواز نہ سنی ہوگی۔اسی طرح گاتے ہوئے چاروں جانور کھڑکی کے راستے اندر گھسنے لگے۔شیشوں کوتوڑتے ہوئے یہ اندر کی طرف بڑھے۔
ڈاکوؤں نے خوفناک آوازوں کے ساتھ شیشوں کے چھنا کے سنے تو اچھل کر بھاگے اور سیدھے جنگل کا راستہ لیا اور بھاگے چلے گئے۔
اب گدھا ،کتا بلی اور مرغا یہ سب بیٹھ کر اس وقت تک کھاتے رہے جب تک ان کا پیٹ اچھی طرح بھر نہیں گیا۔کھانے پینے سے فارغ ہو کر انہوں نے لائٹ بند کر دی اور سونے کے لئے لیٹ گئے۔
گدھا لان میں گھاس پر بیٹھ گیا،کتا دروازے کے پیچھے لیٹ گیا۔بلی آگ کے قریب لیٹ گئی اور مرغا چھت کے قریب ایک شہتیر پر بیٹھ گیا۔دن بھر چلتے رہنے سے یہ اتنے تھک گئے تھے کہ جلدی ان سب کو گہری نیند آگئی اور سارے سو گئے۔
ڈاکوؤں نے دور جا کر مکان کی طرف دیکھا تو مکان کی لائٹ بجھی ہوئی تھی۔
آدھی رات ہو گئی تھی ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔اب وہ حیران ہو نے لگے کہ ہم اتنے ڈر کیوں گئے تھے۔یہاں تو ڈر کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔
ڈاکوؤں کے سردار نے کہا”ہمیں اتنا ڈرپوک نہیں ہونا چاہئے کہ ڈر کے بھاگ آئے۔اس نے ایک ڈاکو کو حکم دیا کہ جاؤ اور دیکھ کر آؤ کہ مکان میں کیا ہے۔
وہ ڈاکو آہستہ آہستہ مکان کی طرف آیا۔اس نے کان لگا کر سنا کوئی آواز نہیں آرہی ہے۔وہ خاموشی سے کچن میں گیا تاکہ موم بتی لے آئے اور اس کو جلا کر روشنی کرے اور دیکھے کہ مکان میں کیا ہے،جب وہ کچن کی طرف گیا تو اس نے اندھیرے میں بلی کی آنکھیں چمکتی دیکھیں۔
اس نے سوچا کہ یہ انگارے ہیں اس نے موم بتی ایک انگارے کے اوپر رکھی تاکہ موم بتی جل جائے،وہ موم بتی سیدھی بلی کی آنکھ میں جاکر لگی۔اب بلی یہ کیسے پسند کرتی کہ اس کی آنکھ میں موم بتی گھسادی جائے۔وہ جاگ گئی اور خرخراتے ہوئے ڈاکو کے چہرے کی طرف اچھلی اور اپنے پنجوں سے ڈاکو کا چہرہ زخمی کر دیا۔
ڈاکو اس اچانک حملے سے گھبرا گیا اور دروازے کی طرف بھاگا۔یہاں دروازے کے پیچھے کتا سو رہا تھا۔ڈاکو کا پیر کتے پر پڑا تو وہ بھی جاگ گیا اور اچھل کر ڈاکو کے پیرپر کاٹ لیا۔اب وہ صحن کی طرف بھاگا۔صحن میں گدھا سورہا تھا اس نے ڈاکوکوزور دار لات جمائی اور ڈاکو درد کے مارے چیخنے لگا۔
ان آوازوں سے مرغا بھی جاگ گیا اور اڑتا ہوا چھت سے اترا اور زور زور سے چیخنے لگا۔ڈاکو بہت زیادہ ڈر گیا اور بھاگ کھڑا ہوا۔اپنے دوستوں کے پاس پہنچا تو اس کا سانس بہت ہی پھولا ہوا تھا۔
ڈاکوؤں کے سردار نے کہا”تمہیں کیا ہواہے؟“
ڈاکو چلا یا مجھے بچاؤ اس مکان میں ایک چڑیل ہے اس نے مجھ پر جھپٹا مارا اور میرا چہرہ اپنے لمبے پنجوں سے نوچ لیا۔
ایک آدمی چاقو لیے دروازے کے پیچھے چھپا ہوا تھا اس نے میرا پیر زخمی کر دیا۔صحن میں ایک بڑا سا عفریت تھا جس نے مجھے لکڑی کے موٹے ڈنڈے سے مارا اور چھت کے قریب ایک جج بیٹھا ہوا چیخ رہا تھا”ڈاکو کو میرے پاس لاؤ“یہ سن کر میں بھاگا اور جتنی تیزی سے بھاگ سکتا تھا۔
بھاگ کر تم لوگوں کے پاس آگیا۔باقی ڈاکو یہ ڈراؤنی کہانی سن کر اتنے ڈرے کہ انہوں نے پھر کبھی اس مکان کی طرف ہی نہیں بلکہ اس کے قریب بھی جانے کا حوصلہ نہیں کیا۔وہ بہت ڈرے ہوئے اپنے گھروں کو چلے گئے۔اس طرح ہونا ان چاروں دوستوں کے لئے بہت اچھا ہو گیا۔
اب وہ اسی مکان میں مزے سے زندگی گزارنے لگے۔اب ان کے پاس رہنے کو ایک گھر بھی تھا اور اس مکان میں کھانے کی بہت سی چیزیں بھی تھی۔انہیں کوئی کچھ کہنے والا بھی نہیں تھا اور نہ ہی اب انہیں کسی کا ڈر تھا۔اب وہ اپنی مرضی کے مالک تھے جو چاہتے کرتے اور جس طرح چاہتے رہتے ۔
اب وہ یہاں بہت ہی خوش رہتے تھے انہوں نے بریمین جانے کا خیال بھی چھوڑ دیا تھا۔جہاں جا کر وہ میوزک بینڈ میں شامل ہونا چاہتے تھے اور اب وہ وہاں جاتے ہی کیوں۔ان کے پاس کس چیز کی کمی تھی۔

Facebook Comments