جمعہ 03 مئی 2024

حقیقی خوشی

حقیقی خوشی
شاہ بہرام انصاری
زینب ایک بڑے سے بنگلے کے مالک وقاص کی چہیتی بیٹی تھی سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے اسے ماں باپ سے زیادہ پیار ملاوہ ضد کی پکی اور اپنی بات منوانے کی عادی ہوگئی تھی ۔عید کی آمد میں صرف چند روز باقی تھے اسی وجہ سے زینب نے خریداری شروع کردی۔
زینب نے اپنی سہیلیوں سے ایک شرط لگا رکھی تھی وہ یہ کہ اس عید پر کون سب سے زیادہ خوبصورت اور اچھی نظر آئے گی۔زینب اپنی پھپھو کے ساتھ بازار گئی اور ایک مہنگی فراک خریدلائی۔دوسرے دن پھر بازار گئی اور بچوں والی جاذب نظر ساڑھی لے لی۔
اسی طرح یہ سلسلہ ایک ہفتہ تک جاری رہا اور زینب نے اپنی پوری الماری نئے کپڑوں سے بھرلی۔اس کے ابو کاروباری معاملات میں الجھے رہتے جبکہ امی آرام طلب خاتون تھیں۔
اس سے باز پرس کرنے والاکوئی تھا نہیں اسی لیے زینب نے حد سے زیادہ شاپنگ کرلی اس کی پوری کوشش تھی کہ شرط صرف وہی جیتے اور اپنی سہیلیوں پر رعب جمائے۔
عید آنے میں تین چار دن رہ گئے اور اس کی بھی بس ہوگئی۔زینب کے بنگلے میں ایک پرانی ملازمہ کام کرتی تھی۔اس کی ایک بیٹی تھی جو زینب کی عمر کی تھی۔اس کا نام اقصیٰ تھا۔اس کی ما ں نے اسے ایک سرکاری سکول میں داخل کروایا ہوا تھا کہ وہ کچھ پڑھ لکھ جائے۔
دونوں ماں بیٹی کا اس بھری دنیا میں کوئی نہیں تھا اور وہ زینب کے بنگلے کے پچھلے حصے میں تعمیر کردہ چھوٹے سے کوارٹر میں رہتی تھیں۔اس کی ماں کسمپرسی کی حالت میں زینب کے گھر کی جھاڑ پونچھ کیا کرتی تھی۔سکول سے واپسی کے بعد اقصیٰ بھی صفائی میں اس کی مدد کر دیتی۔
روزہ افطار ہونے میں ابھی آدھا گھنٹہ باقی تھا اور زینب کو روزہ لگ رہا تھا۔وہ ٹہلتے ہوئے اپنی ملازمہ کے کوارٹرکے پاس سے گزری کوارٹر میں اقصیٰ اپنی ماں سے نئے جوتوں اور کپڑوں کی فرمائش کررہی تھی اس کی ماں اسے سمجھا رہی تھی کہ ہم غریب لوگ ہیں ہماری قسمت میں نئے کپڑے اور جوتے کہاں؟دووقت کی روٹی نصیب ہو جائے تو ہمارے لئے یہی عید ہے ۔
اقصیٰ یہ سن کر رونے لگی تو ماں نے اسے جھوٹی تسلی دلادی کہ وہ کچھ کرے گی۔زینب کو یہ سب دیکھ کر بہت دکھ ہوا افطاری کے بعد زینب نے اپنے لئے خریدے گئے کپڑوں اور جوتوں میں سے ایک ایک جوڑا نکالا اور اقصیٰ کی ماں کو بلا کر بولی‘ماں جی یہ رکھ لیں میری طرف سے آپ کی بیٹی کے لئے عید کا تحفہ ہے اور اقصیٰ کو مت بتائیے گا میں نے دیا ہے۔
اس کی ماں تشکربھر ے انداز میں اس کا ماتھاچوم لیا۔عید والے دن زینب کی سہیلیاں اسے ملنے آئیں تو اسے دیکھ کر بہت حیران ہوئیں کیونکہ وہ ایک سادہ سا لباس زینب تن کیے ہوئے تھی سہیلیوں کے پوچھنے پر اس نے انہیں ساراواقعہ سنا دیا۔
اس کی تمام سہیلیوں نے اس کے جذبے کو سراہا اور اسے شرط کی فاتح قرار دے دیا۔ساتھیوہمارے آس پاس یقینا کئی ایسے بچے ہوں گے جو ہماری امداد کے منتظر ہیں ہمیں چاہئے کہ ان سب کو اپنی خوشیوں میں شریک کرلیں تاکہ عید کی حقیقی خوشیوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔

Facebook Comments