جمعہ 26 اپریل 2024

ایک کھانی بڑی پُرانی

ایک کھانی بڑی پُرانی
خالد نجیب خان
کہتے ہیں کہ کسی گاؤں میں آنو نامی ایک شخص رہتا تھا ۔وہ بہت محنتی تھا مگر قسمت اُس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی جس کی وجہ سے اُس کے گھر میں نوبت فاقوں تک پہنچ چکی تھی ۔ایک دن اُس نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر ہم یہیں رہ کر کام کرتے رہے اور حالات بدلنے کا انتظار کرتے رہے تو شاید وہ دن بہت دیر سے آئے کیوں نہ ہم کہیں اور جا کر اپنی قسمت آزمائیں۔
اُس کی بیوی بھی اُس سے کم نہیں تھی ۔اُس نے کہا تم ٹھیک کہتے ہو ،اس گاؤں میں رہے تو غربت ہی رہے گی ،مگر میرا یہ خیال ہے کہ ہم دونوں کا اکھٹے جانا شاید زیادہ اچھا نہ ہو پہلے تم اکیلے جاؤ اور کچھ کوشش کرو،اس دوران میں یہاں پر ہی محنت مزدوری سے کچھ کمانے کی کوشش کروں گی ۔
آنو نے اپنی بیوی کو اپنے ساتھ چلنے کیلئے بڑا زور لگایا مگر وہ نہ مانی تو آنو نے بھی ضد چھوڑ دی اور اکیلے ہی جانے کی تیاری کرنے لگا۔
اُس نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں کل صبح ہی روزی کی تلاش میں نکل جاؤں گا۔
بیوی نے کہا:صبح تو منگل کا دن ہے ،اس لئے کل جانے کی بجائے بدھ کے روز سفر پر روانہ ہو نا ،یہ ہمارے لئے بہتر ہو گا ۔
آنو نے کہا:میں ان باتوں پر یقین نہیں رکھتا مگر ایک دن سے کیا فرق پڑتا ہے ،
تمہاری خوشی اور اطمینان کی خاطر میں پرسوں روانہ ہو جاؤں گا۔
یونہی باتیں کرتے کرتے دونوں سوگئے ۔صبح جب آنو کی بیوی کی آنکھ کھلی تو اُس نے دیکھا کہ آنو اپنے بستر میں نہیں ہے ،وہ بہت پریشان ہوئی کہ ایسا تو کبھی بھی نہیں ہوا کہ آنو اُس سے پہلے نیند سے جا گا ہو ،آج کیا ہوا ہے ۔
اُس نے اپنے چھوٹے سے گھر میں ادھر ادھر اُس کوڈھونڈ ا مگر وہ نہ ملا تو اُس کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو گیا۔
وہ تھک کر گھر کی دہلیز پر بیٹھ گئی ۔اُس کے دل میں کئی طرح کے خیالات آرہے تھے مگر وہ ہر برے خیال کو سر جھٹک کر دور کر دیتی۔
اپنا سر جھٹک جھٹک کر وہ تھک گئی تھی اور دل ہی دل میں دعا کررہی تھی کہ اُس کے شوہر کی کہیں سے کوئی اچھی خبرمل جائے۔ابھی وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ گلی کی نکڑ پر اُسے اپنا شوہر آتا ہوا محسوس ہوا۔پہلے تو اُس نے اسے وہم سمجھا مگر پھر یقین ہو گیا تو وہ لپک کر اُس کی طرف بڑھی ،وہ بھی آہستہ آہستہ قریب آرہا تھا ۔
چند لمحوں میں وہ اُس کے قریب پہنچ گیا۔
آنو اپنی بیوی کی یہ بے چینی دیکھ کر پریشان ہو گیااور اُس سے پوچھنے لگا:”کیا ہو گیا ہے ،اِس طرح کیوں بے چین اور پریشان ہورہی ہو؟“
بیوی بولی:”تم بتاؤ کہ اس وقت کہاں سے آرہے ہو ،میں تمہیں گھر پر غیر موجود پا کر سخت پریشان ہو گئی تھی ،اس سے پہلے توتم کبھی اس طرح گھر سے نہیں گئے تھے ۔
وہ سب کچھ ایک ہی سانس میں کہہ گئی۔
اری بھلی لوگ ! تم اتنی سی بات پر پریشان ہوگئی ہو،ابھی تو تم مجھے کل روزی کمانے کیلئے شہر بھیج رہی ہو اور آج تم میرے بغیریوں پریشان ہورہی ہو،میرے بعد تم کیا کرو گی؟
اچھا زیادہ باتیں نہ بناؤ مجھے بتاؤ کہ کہاں سے آرہے ہو صبح صبح۔
بھلی لوگ! آج میں صبح کی نماز پڑھنے مسجد میں گیا تھا ،کل مجھے سنتو بتارہا تھا کہ صبح کی نماز پڑھ کر اللہ سے مانگو تو وہ ضرور دیتا ہے ۔
مگر تمہیں تو نماز پڑھنی ہی نہیں آتی ،مجھے لگتا ہے کہ تم میرے ساتھ جھوٹ بول رہے ہو۔
ارے نہیں جھوٹ بول رہاہوں،تمہیں تو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کیلئے نماز پڑھی جاتی ہے ،اُس نے جھوٹ بولنے سے منع کیا ہے ۔مجھے یہ سب باتیں سنتو نے ہی بتائی ہیں ۔جب سے اُسے یہ معلوم ہوا ہے کہ میں گاؤں چھوڑ کر جا رہا ہوں تو اُس نے مجھے ایسی باتیں بتانا شروع کر دی ہیں ۔
سچ پوچھو تو مجھے اُس کی بتائی ہوئی ساری باتیں بہت اچھی لگی ہیں ۔اسی لئے تو میں اُس کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کرنے لگا ہوں ۔اُس نے تو مجھے یہ بھی بتایا ہے کہ جھوٹ بول کر اگر ہم کسی سے کوئی فائدہ اُٹھالیتے ہیں تو جس سے جھوٹ بولا ہوتا ہے اُسے اگر معلوم نہ بھی ہوتو پھر بھی اس پر سخت سزاملتی ہے۔
یہ کیا بات ہوئی جب ہم نے کسی سے کوئی فائدہ اُٹھا لیا اور اُس کو علم بھی نہ ہوتو پھر سزا کیسے اور کون دے گا؟آنو کی بیوی نے اپنی طرف سے بڑا فلسفہ جھاڑتے ہوئے کہا ہاں! میں نے بھی اُس سے یہی سوال پوچھا تھا،اُس نے کہا،سز ادینے والا اللہ ہے جس نے ہمیں پیدا کیا ہے اور وہی اللہ ہمیں موت بھی دیتا ہے ،وہی ہمیں رزق بھی دیتا ہے ،اُسی کا یہ حکم ہے کہ سب لوگ بری حرکتوں سے بچ کر رہو ۔
اگر ہم تمام بری حرکتوں سے بچ کر زندگی گزارین اور اسی حال میں ہماری موت آجائے تو ہم جنت میں چلے جائیں گے جہاں ہمیں بے شمار سہولتیں اور نعمتیں ملیں گی اور یہ سب نعمتیں ایسی ہوں گی کہ جیتے جی اُن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
آنو! تم جو یہ باتیں کررہے ہو اگر سچ میں ایسے ہی ہیں تو مجھے اور بھی باتیں بتاؤ۔
اری بھلی لوگ! کیا یہ ساری باتیں یہیں سڑک پر ہی تمہیں بتا دوں ،ابھی گھر چلو ،آرام سے بتاؤ ں گا ۔مگر سب سے پہلے تو گھر چل کر تم بھی نماز پڑھو۔
مگر مجھے تو نماز پڑھنا نہیں آتی۔
کوئی بات نہیں ،مجھے بھی نہیں آتی تھی مگر میں نے بھی پڑھ لی ہے ،میں تمہیں اُتنی سکھا دیتا ہوں جتنی مجھے آتی ہے ،آہستہ آہستہ ساری آجائے گی اور اس طرح ہم سزا سے بچ جائیں گے اور بے شار نعمتیں اور سہولتیں حاصل کرلیں گے ۔
یہ باتیں کرتے کرتے وہ اپنے پہنچ چکے تھے ،آنو نے دیکھا کہ اُس کے گھر کی منڈ ھیر پر ایک کو ابیٹھا کچھ کھارہا ہے ،اُس نے شرارت سے اُسے اُڑایا تو وہ اپنا کھانا وہیں گرا کر اُڑ گیا ۔اُس نے پاس سے گزرتے ہوئے دیکھا تو وہ ایک چھوٹا سے اصلی ہیروں کا ہارتھا۔
بھلی لوگ یہ دیکھو۔۔۔ابھی ہم نے نیک بننے کا ارادہ کیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے ہماری مدد کردی ہے ۔جب سچ مچ کے نیک بن جائیں گے تو پھر وہ ہمارے ساتھ کتنا اچھا سلوک کرے گا، چل اس کو سنبھال لے آج بازار جا کر اس کو بیچ کر ضروریات زندگی کی چیزیں خرید کر لاؤں گا اورہم یہیں ہنسی خوشی زندگی گزاریں گے ۔

Facebook Comments