بدہ 08 مئی 2024

ایبٹ آباد جیل میں قیدی کی قرآن کی مبینہ بے حرمتی، جیل سمیت شہر میں ہنگامہ آرائی

ایبٹ آباد جیل

صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر ایبٹ آباد کی ضلعی جیل میں قرآن کی مبینہ بے حرمتی کے الزام میں ایک قیدی کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور اس واقعے کی خبر پھیلتے ہی شہر بھر میں متعدد مقامات پر مظاہرے کیے گئے ہیں۔

جیل حکام کے مطابق سنیچر کے روز ملزم کے قیدی ساتھیوں نے اس پر قرآن کی مبینہ بے حرمتی کا الزام لگانے کے بعد اسے زد و کوب کرنے کی کوشش کی اور اس دوران جب جیل اہلکاروں نے مداخلت کی تو قیدیوں نے ہنگامہ آرائی شروع کر دی اور اہلکاروں پر حملہ کر دیا۔

بی بی سی کو دستیاب معلومات کے مطابق گرفتار ملزم کے خلاف اس سے قبل سنہ 2019 میں ایبٹ آباد کے تھانہ نواں شہر میں بھی توہین مذہب کے قانون کے تحت مقدمہ درج کیا جا چکا ہے جس کے بعد سے ملزم جیل میں قید ہے۔

جیل حکام کے مطابق ملزم نفسیاتی مریض ہے اور علاج کی غرض سے سینٹرل جیل ہری پور کے ذہنی امراض کے ایک وارڈ میں بھی رہ چکا ہے۔

جیل حکام کے مطابق ملزم کو اس کی حفاظت اور نفسیاتی مریض ہونے کی وجہ سے الگ سیل میں رکھا جاتا ہے اور جب دوسرے قیدی بیرکوں سے باہر ہوتے ہیں تو اس وقت ملزم کو باہر نہیں نکالا جاتا۔

ان کے مطابق واقعے کے روز بھی تمام قیدیوں کو بیرکوں میں بند کر کے ملزم کو نکالا گیا تو مبینہ واقعہ پیش آیا جس کے بعد ہنگامہ آرائی ہوئی۔

ہزارہ ڈویژن کے ڈی آئی جی میر واعظ نیاز کے مطابق ڈسٹرکٹ جیل ایبٹ آباد میں ہنگامہ آرائی پر قابو پانے کے لیے پولیس نے کارروائی کی جس کے بعد صورتحال قابو میں آ گئی ہے۔

اس واقعے کے بعد ایبٹ آباد شہر میں بھی احتجاج شروع ہو گیا جو رات گئے تک جاری تھا۔ مشتعل مظاہرین نے ایبٹ آباد کے داخلی اور خارجی راستوں کو بلاک کر دیا جس سے ٹریفک کی آمد و رفت میں خلل پیدا ہو گیا اور شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

احتجاج کے دوران ڈسٹرکٹ جیل کے اردگرد کے علاقے میں پولیس اور مظاہرین کے درمیاں تصادم بھی ہوا ہے۔ پولیس نے مشتعل لوگوں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس استعمال کی۔

تھانہ سٹی ایبٹ آباد پولیس کے مطابق قرآن ک مبینہ بے حرمتی کا مقدمہ درج کرنے کی شکایت ڈسٹرکٹ جیل کے ایک اہلکار نے کی تھی۔ تھانہ سٹی کے مطابق جیل میں ہنگامہ آرائی کرنے والے قیدیوں کے خلاف علیحدہ سے مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

جیل حکام کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر درج کروانے کے علاوہ وہ خود بھی اس واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

Facebook Comments