جمعرات 16 مئی 2024

پشاور ہائیکورٹ: سرکاری ملازم کیخلاف وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی کا فیصلہ کالعدم قرار

پشاور ہائیکورٹ

پشاور ہائیکورٹ نے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے ایک ملازم کے خلاف وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی کی کارروائی کو مسترد کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے کہ کارروائی کا اختیار صرف متعلقہ محکمہ کے پاس ہے۔

دھرتی نیوزکی رپورٹ کے مطابق جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس محمد ناصر پر مشتمل بینچ نے اے سی ای کے تفتیشی افسر غلام محمد کی جانب سے دائر درخواست کو جزوی طور پر قبول کرتے ہوئے ریماکس دیے کہ درخواست گزار کے خلاف لازمی ریٹائرمنٹ کا جرمانہ لگانا وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ درخواست گزار کی مجاز اتھارٹی کو ملازم کے خلاف کارروائی شروع کرنے کے اختیارات سے محروم نہیں رکھا جاسکتا۔

بینچ نے متعلقہ حکام سے درخواست گزار کے خلاف تحقیقات کی کارروائی کو اے سی ای کے پاس بھیجنے کے لیے کہا تاکہ وہ اہلیت اور نظم و ضبط کے قواعد کے تحت ریگولر تفتیش کے طور پر کی جا سکے۔

عدالت نے درخواست پر ایک تفصیلی فیصلے میں ورکس پلیس ایکٹ 2010 میں خواتین کو ہراسانی سے تحفظ کرنے کی متعدد دفعات پر تبادلہ خیال کیا اور اس کے تحت بنائے گئے قواعد اور محتسب کے ذریعہ جرمانے لگانے سے متعلق کچھ ابہام کو اجاگر کیا۔

محتسب کو معمولی یا بڑا جرمانہ عائد کرنے کا استحقاق سے متعلق ایکٹ کے سیکشن 10 (2) کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے ریماکس دیے کہ پارلیمنٹ کسی بھی اتھارٹی کو نامزد کرتے ہوئے کسی قابل اتھارٹی کو منتقلی نہیں کرے گی یا بیک وقت اسی کام کو انجام دینے کے لیے متوازی اتھارٹی کا تقرر نہیں کرے گی۔

محکمہ تعلیم کی ایک خاتون ملازم کی مبینہ بدعنوانی کے بارے میں اسرار خان کی جانب سے 30 مارچ 2016 کو وزیر اعلیٰ کے شکایت سیل میں شکایت درج کروائی گئی تھی۔

2011 میں ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے محکمہ کے ڈائریکٹر کے پاس ملازمہ کے خلاف شکایت درج کروائی گئی تھی۔

معاملہ اے سی ای کو دیا گیا جس میں درخواست گزار کو انکوائری افسر مقرر کیا گیا۔

تفتیش کے دوران اس نے مبینہ طور پر اس ملازمہ کو کچھ پیغامات ارسال کیے جس کے بعد خاتون نے 15 فروری 2018 کو اے سی ای ڈائریکٹر کو شکایت درج کروائی۔

خاتون ملازم نے وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی کے ریجنل کمشنر کے پاس بھی شکایت درج کروائی تھی جنھوں نے دلائل سننے کے بعد درخواست گزار کو ہراساں کرنے کا قصوروار پایا اور اسے 2 مارچ 2018 کو ’معمولی جرمانے‘ کی شق کے تحت سزا دی۔

Facebook Comments