پیر 20 مئی 2024

پی ڈی ایم کا ایک مرتبہ پھر جلسوں کا اعلان ، مگر سلسلہ شروع کہاں سے ہوگا؟ شیڈول سامنے آگیا

اسلام آباد (دھرتی نیوز) پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے پاکستان پیپلز پارٹی اور اے این پی کو پارلیمنٹ میں ساتھ ملا کر بجٹ کی مخالفت کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، 4 جولائی سے حکومت کے خلاف ایک بار پھر بھرپور تحریک شروع کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے، ملک بھر میں جلسے اور احتجاجی مظاہر ے کئے جائیں جبکہ پی ڈی ایم نے خطے کی صورتحال کو تشویش ناک قراردیتے ہوئے ملکی دفاعی اور افغانستان کی صورت حال پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرکے ادار وں کی جانب سے ان کیمرا بریفنگ دیئے جانے کا مطالبہ کیا اور کہا ہے کہ حکومت کی کرپشن اور غیر آئینی اقدامات کیخلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی، قانونی ماہرین کی ٹیم تشکیل دی جارہی ہے، ووٹنگ مشین کی تجویز کو بھی مسترد کردیا گیا ہے۔

 روزنامہ پاکستان کے مطابق پیپلز پارٹی اور اے این پی کی پی ڈی ایم مین واپسے کے حوالے سے تمام جماعتوں نے اختیار مولانا فضل الرحمن کو سونپ دیا پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ (پی ڈی ایم) کا سربراہی اجلاس ہفتہ کو ن لیگ کے اسلام آباد سیکرٹریٹ میں ہوا، جس کی میزبانی مسلم لیگ ن اور صدارت سربراہ پی ڈی ایم فضل الرحمان نے کی۔ اجلاس میں شہباز شریف، مریم نواز، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، آفتاب شیر پاؤ، محمود خان اچکزئی، میر کبیر شاہی، طاہر بزنجو بھی شریک ہوئے۔ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف، اسحاق ڈار اور عابد شیرعلی ویڈیو لنک پر شریک ہوئے، جب کہ تحریک انصاف کی اتحادی صف سے نکل کر پی ڈی ایم میں شامل ہونے والے بی این پی مینگل کے سربراہ اختر مینگل بھی ویڈیو لنک پر موجود تھے۔

 اجلاس میں ملکی سیاسی صورتحال اور پی ڈی ایم کی حکمت عملی پر مشاورت ہوئی، اور پیپلزپارٹی اور اے این پی کی واپسی سے متعلق معاملات بھی زیر غور لائے گئے۔ پی ڈی ایم کے سیکرٹری جنرل اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے اجلاس میں پیپلز پارٹی اور اے این پی کو جاری شوکاز نوٹس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے دونوں پارٹیوں کو اپنے فیصلوں پرنظرثانی کے لیے کہا لیکن دونوں نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا، ن لیگ کا دونوں جماعتوں بارے موقف واضح ہے، اب پی ڈی ایم ان دونوں بارے فیصلہ کرے۔

 پیپلز پارٹی اور اے این پی کے معاملے پر تفصیلی مشاورت کے بعد تمام جماعتوں نے مولانا فضل الرحمان کو فیصلے کا اختیار دے دیا۔ اجلاس کے دوران فیصلہ کیا گیا کہ پیپلز پارٹی اور اے این پی کو پارلیمنٹ میں ساتھ ملایا جائے گا، بجٹ اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں نے مل کر مخالفت کا فیصلہ کیا ہے اور جعلی حکومتی اعداد و شمار بے نقاب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں تمام اپوزیشن جماعتیں مل کر کردار ادا کریں گی۔

اجلاس میں نواز شریف نے پیپلز پارٹی اور اے این پی کی واپسی پر موقف واضح کیا، جب کہ نائب صدر مسلم لیگ ن مریم نواز نے بھی اپنی تجاویز پیش کیں۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اجلاس میں غور کیا گیا کہ خطے کی صورت حال تشویش ناک ہوتی جارہی ہے، ہماری حکومت عوام کی منتخب حکومت نہیں ہے، جس حکومت کو عوام کی تائید حاصل نہ ہو تو وہ کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم نے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان اور خطے کی صورت حال پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے اور دفاعی صورت حال ہو یا خارجہ پالیسی ہو، ان کیمرا اجلاس میں متعلقہ ادارے ایوان کو حقائق سے آگاہ کریں۔ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے حوالے سے دوحہ معاہدہ اور اس کے بعد ہونے والی پیش رفت، نئی امریکی انتظامیہ کی ترجیحات، معاہدے پر ہونے والے ممکنہ اثرات اور یہ افواہیں کہ پاکستان اپنے ایئربیسز امریکی طیاروں کو مہیا کرے گا، اسے پاکستان پر تزویراتی اور سیاسی اثرات مرتب ہوں گے۔

 مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ افغانستان کی مزاحمتی قوت کے ردعمل سے پاکستان کن مشکلات سے دوچار ہوسکتا ہے، یہ ساری وہ چیزیں ہیں جو پاکستان کے لیے حساس حیثیت رکھتی ہیں، اس لیے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے اور ضروری ہوتو ان کیمرا اعتماد میں لیا جائے۔ ان کاکہنا تھا کہ موجودہ حکومت کسی بھی قسم کے چیلنج کا سامنا نہیں کرسکتی، موجودہ حکومت عوام کی منتخب کردہ حکومت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا حکومت کی کرپشن اور غیر آئینی اقدامات کیخلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی، قانونی ماہرین کی ٹیم تشکیل دی جارہی ہے، سینیٹر اعظم نذیر تارڑ اس میں شامل ہوں گے۔

 فضل الرحمان نے کہا کہ پی ڈی ایم نے بڑے احتجاجی جلسوں اور عوام سے رابطوں کا پلان بنا لیا ہے، 4 جولائی کو سوات میں احتجاجی مظاہرہ کیا جائے گا، 29 جولائی کو کراچی میں جلسہ کیا جائے گا، 14 اگست کو یوم آ زادی منائیں گے، اسلام آباد میں عظیم الشان مظاہرہ ہو گا۔پاکستان کی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار ہو گا۔پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ اجلاس کے دوران پیپلزپارٹی اور اے این پی کے حوالے سے کوئی غور نہیں ہوا۔ پیپلزپارٹی ہمارے ساتھ نہیں ہے، پی پی اگر پی ڈی ایم کی طرف رجوع کرنا چاہتی ہے تو ہمیں انتظار ہوگا، جو بھی فیصلے ہوں گے مشاورت سے ہوں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ووٹنگ مشین کی تجویز کو مسترد کرتے ہیں، یہ ایک پری پول رگنگ ہے۔ متعلقہ ادارے ایوان کوحقائق سے آگاہ کریں۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم صحافتی برداری اور میڈیا کارکنوں پر ہونے والے حملوں کی شدید مذمت کرتا ہے اور صحافتی برادری کے ساتھ مکمل یک جہتی کا اظہار کرتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے اظہار ہمدردی کے لیے پی ڈی ایم کی قیادت متاثرہ صحافی حضرات کے گھر میں بھی جائے گی۔

 اس موقع پر مریم نواز نے کہا کہ جس موقف کا مولانا نے اظہار کیا وہی موقف نوازشریف کا بھی ہے۔ ایسے ماحول میں آواز اٹھانا کو ئی چھوٹی بات نہیں۔ ہم نے سیاست، صحافت اور عدالت کے لیے جدوجہد کی۔ ہماری عوام کے لیے کی جانے والی جدوجہد سے غیر جمہوری قوتیں پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئیں۔ یہ سب کچھ مفاہمت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا اب یہ پاکستان میں نہیں گا کہ کوئی خود کو عوام کے علاوہ طاقت کا سرچشمہ سمجھے۔ عوام کے پاس جانا پی ڈی ایم کا حق ہے۔ مایوسی کے عالم میں جلسے جلوس نہیں کیے جاتے۔ عوام کے ساتھ کھڑے ہونا پی ڈی ایم کی کمزوری نہیں بلکہ پی ڈی ایم کی مضبوطی کی نشانی ہے۔ مریم نواز نے کہا پیپلز پارٹی شہباز شریف کو اپوزیشن لیڈر تسلیم کرتی ہے۔ پی ڈی ایم کی اپنی حکمت عملی ہے اور پارلیمنٹ کی اپنی حکمت عملی ہے۔ دونوں کو یکجا نہ کیا جائے۔ اپوزیشن لیڈر کے طور پر شہباز شریف اپنی ذمہ داریوں سے واقف ہیں۔ پی ڈی ایم کامکمل طور پر آزادانہ کردار ہے۔ پیپلز پارٹی اب پی ڈی ایم کا حصہ نہیں اس لیے اب وہ میرا ہدف بھی نہیں ہے۔ درخواست ہے کہ بار بار مجھے پیپلز پارٹی سے متعلق سوال میں نہ الجھایا جائے۔اس موقع پر ان سے سوال کیا گیا کہ ن لیگ میں مفاہمت کی سیاست ہو گی یا مزاحمت کی؟ اس پر انہوں نے کہا کہ اگر مزاحمت ہو گی تو ہی مفاہمت ہو گی، پاور ٹاکس ٹو پاور۔پاور کمزور ی سے بات نہیں کرتی۔ جہاں کمزوری دیکھائی دشمن حملہ آور ہو گا۔ کوئی بھی چیزٹرے میں رکھ کر نہیں ملتی۔ آپ کو اپنا حق لڑ کر اور چھین کر لینا پڑتا ہے۔ آج ملک میں میڈیا نمائندگان اور ججز پر حملے ہو رہے ہیں۔ جب سچ بولنے اور سچ لکھنے پر سزا دی جائے تو دل دکھتا ہے۔

پی ڈی ایم کے سیکرٹری جنرل اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے اجلاس میں پیپلز پارٹی اور اے این پی کو جاری شوکاز نوٹس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے دونوں پارٹیوں کو اپنے فیصلوں پرنظرثانی کے لیے کہا لیکن دونوں نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا، ن لیگ کا دونوں جماعتوں بارے موقف واضح ہے، اب پی ڈی ایم ان دونوں بارے فیصلہ کرے۔پیپلز پارٹی اور اے این پی کے معاملے پر تفصیلی مشاورت کے بعد تمام جماعتوں نے مولانا فضل الرحمان کو فیصلے کا اختیار دے دیا۔

احسن اقبال نے کہا ہے کہ اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ (پی ڈی ایم) نے پاکستان پیپلز پارٹی کو چھوڑ دیا ہے، پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کے کراچی کے جلسے میں شریک نہیں ہوگی۔پی ڈیم اجلاس کے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک سے آؤٹ ہوگئی ہے اور پارلیمان میں شہباز شریف ساتھ لے کر چلیں گے۔انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتوں کو ملا کر حکومت کو ٹف ٹائم دیں گے، پارلیمنٹ میں موجود بہت سی جماعتیں ہیں جو پی ڈی ایم کا حصہ نہیں ہیں، پارلیمنٹ میں موجود جو اپوزیشن پارٹی ہمارے منشور کو مانے گی اس کا تعاون حاصل کریں گے۔

Facebook Comments