اتوار 19 مئی 2024

سعودی عرب میں اب نماز کے وقت کاروبار کے حوالے سے کون سا بڑا فیصلہ ہونے والا ہے؟

سعودی عرب دنیا بھر میں اپنے سخت قوانین کے باعث جانا جاتا ہے۔ وہاں کی عوام اصول و ضوابط پرسختی سے عمل کرنے کی پابند ہے۔ علاوہ ازیں قانون کی خلاف ورزی پر سزا کا مستحق ہوتا ہے۔

جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ سعودی عرب میں نماز کے وقت دکانیں ، کاروبار ، اور دیگر کاروباری مراکز پر کام روک دیا جاتا ہے اور ایسا کئی سالوں سے چلا آرہا ہے۔ سب اپنے کام کاج چھوڑ کر نماز پڑھنے کے لیے مسجد کا رخ کرتے ہیں اور کچھ دیر کے لیے کاروبار کو روک دیتے ہیں۔

لیکن اب سعودی عرب میں نماز کے دوران کاروباری مراکز پر عائد پابندی اٹھانے پر غور کیا جا رہا ہے جس کی باقاعدہ ووٹنگ کی جائے گی۔

سعودی ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق شوریٰ کے اراکین کی اسلامک اینڈ جوڈیشل افیئرز کمیٹی کی جانب سے وزارت اسلامی امور کی رپورٹ میں کچھ مزید سفارشات پیش کی گئی ہیں جن میں نماز کے وقت تجارتی مراکز پر عائد پابندی ہٹانے کی سفارش بھی شامل ہے۔

یہ سفارش شوریٰ کمیٹی کے ارکان ڈاکٹر فیصل الفادل، عطا الصبیتی، ڈاکٹر لطیفہ ال عبدالکریم اور ڈاکٹر لطیفہ الشالان نے پیش کی ہیں۔

وزارت اسلامی امور سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ متعلہ ایجنسیوں سے مشاورت کریں کہ تجارتی سرگرمیوں بشمول پیٹرول پمپس اور فارمیسیز کو نماز کے اوقات میں بند نہ کیا جائے البتہ جمعے کی نماز میں تمام تجارتی سرگرمیوں پر پابندی برقرار رکھی جائے۔

کمیٹی کے ارکان نے اپنی یہ سفارش پیش کرتے اور اسلامی دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں بالخصوص اسلامی ممالک کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ نماز کے اوقات میں تجارتی مراکز بند کر دیئے جائیں،لیکن ایساصرف سعودیہ میں کیا جاتا ہے۔

اراکینِ کمیٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ نماز کے اوقات میں دکانوں کو بند کرنے کا حکم قرآن اور سنت میں بھی کہیں حوالہ نہیں ملتا،بس صرف نماز جمعہ کے دوران کاروبار روک دینے کا حکم کیا گیا ہے۔

اسلامک اینڈ جوڈیشل افیئرز کمیٹی کے ارکاننے مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے جو احادیث موجود ہیں وہ ضعیف ہیں اور اس حوالے سے کوئی مستند حدیث موجود نہیں اور نہ ایسے کوئی شواہد موجود ہیں کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے دورمیں نماز کے اوقات میں کاروبار بند کرنے کا طریقہ رائج تھا۔

ارکان نے مزید کہا کہ نماز کے دوران کاروبار روک دینے سے کاروباری افراد کو مشکل کا سامنا ہوتا ہے اور تاجر بھی پریشان حال دکھائی دیتے ہیں۔

Facebook Comments